کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ ایک بڑی بنیادی بات ہے کہ جب بھی اسلام کے خلاف اغیار کوئی مہم چلاتے ہیں تو اُن کا ہدف رسالت ہوتی ہے توحید نہیں۔ بات صاف ظاہر ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں رسالت ہی کے ذریعے توحید یعنی اسلام دنیا بھر میں پھیلا، اس لئے کیوں نہ اس وسیلے کے بارے شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں اور بارگاہ رسالت کی توہین کی جائے جو اسلام کی اساس ہے، اگر یہ بنیاد باقی نہ رہے گی تو توحید کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ ایک شیطانی منصوبہ ہے جسے دنیا بھر کے منکرین اسلام نے مل کر بنایا ہے اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، اس منصوبے سے باطل قوتوں کے کئی مادی فوائد وابستہ ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلم اُمہ کا جغرافیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے۔ اس مہم میں یہود و ہنود اور نصاریٰ سبھی شامل ہیں، پورے عالم اسلام میں اس وقت بیحرمتی¿ رسول پر مبنی فلم کے خلاف مسلمان مظاہرے کر رہے ہیں لیکن ایسے مظاہرے کبھی کوئی مثبت نتائج نہ دے سکے، صرف اس لئے کہ باطل قوتوں کو مسلمانوں کی کمزوریوں کا علم ہو چکا ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ ڈیڑھ ارب مسلمان محض جھاگ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایسا ہی خود رسول اللہ نے فرمایا تھا اور آج کے مسلمانوں نے خود کو جھاگ ثابت کر دیا اگر ان میں کوئی سر اٹھانے والا تھا تو اس کا سر قلم کر دیا گیا اور ایسی تمام تنظیموں کی بیخ کنی شروع کر دی گئی جن سے جہاد فی سبیل اللہ کی خوشبو آ رہی ہے اور جو اس اُمت کا اصل زر ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان اکثر و بیشتر پہلے ہی سے باطل نواز تھے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسلام دشمن طاقتوں نے مسلم عوام کو صرف مظاہروں تک محدود کر دیا ہے جو چند دنوں میں غم و غصے کو کافور کر دیتے ہیں، جب تک عالم اسلام کی قیادتیں صالح نہیں ہوتیں اور سر جوڑ کر اینٹی اسلام مربوط منصوبے کے سدباب کے لئے کوئی حکمت عملی طے نہیں کرتیں اسی طرح توہین رسالت کا فتنہ کبھی دنیا کے کسی کونے سے اور کبھی کسی کونے سے سر اٹھاتا رہے گا۔ ضروری نہیں کہ اس سلسلے کو جنگ و جدل ہی کے ذریعے بند کیا جائے، یہ بھی ممکن ہے کہ مسلم اُمہ اجتماعی طور پر خلاصہ¿ کائنات محمد رسول اللہ کی عزت و حرمت اور ان کی تعلیمات کے خلاف عالمی سطح پر برپا فتنوں کو فرو کرنے کے لئے ایک بین المذاہب مکالمے سے آغاز کرے، اگر اس کے باوجود یہ سلسلہ بند نہیں کیا جاتا تو پھر مسلم اُمہ کے جمہور علماءفتویٰ دیں کہ آئندہ جس ملک سے بھی ایسی کوئی مکروہ آواز اُٹھی، یا کوئی کارروائی ہوئی، تو ہر مسلمان اس کے خلاف حقِ جہاد محفوظ رکھتا ہے۔ اس وقت وہ تمام عالمی تنظیمیں جو حقوق انسانی کے لئے قائم کی گئی ہیں وہ بھی انہی کی ہیں جو توہین رسالت جیسے غیر اخلاقی غیر انسانی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ باطل قوتیں ایسی صورتحال پیدا کر رہی ہیں جس کے ذریعے مسلم اُمہ کے ممالک تباہ ہوں۔ وقت خود ہی ایسے حالات بھی پیدا کر رہا ہے کہ غیرت دینی سے سرشار مسلمانوں کو یکجا کرے ان میں سے ایسی قیادتیں پیدا کریں جو اس دور کو واپس لے آئیں جب دنیا بھر میں کوئی اسلامی شعائر، مسلمین کے خلاف کسی منفی اقدام کی جرا¿ت بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اس وقت ہر مسلم ملک کے پاس بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن بات صرف جدیدیت تک پہنچتی ہے جدید علوم سے دور رہتی ہے۔ عالم اسلامی کا کردار داغدار ہے، عیش و نشاط میں غرق اُمت اور اُن کے قائدین نے دنیا کی ہر باطل قوت کو ہلاکو بنا دیا ہے، اسلام کا بغداد خطرے میں ہے تو حرمین شریفین کی بھی خیر منانی چاہئے کیونکہ تیر کا اشارہ اسی جانب ہے۔ دنیا میں کوئی کچھ بھی کہے دو ہی دھڑے ہیں، حق اور باطل، دونوں ایک دوسرے کے وجود کا سبب بھی ہیں اس لئے اس امتحان میں اہل حق کیسے اور کب کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ بھی مسلمانوں کا عیش و نشاط اور غربت و افلاس سے نکلنے پر منحصر ہے۔ اگر ایک فلم بن گئی ہے تو یہ کسی حقیقی منظر کا پیش خیمہ ہے اور یہ بات بھی اس فلم کے طفیل سامنے آ گئی کہ اس گستاخانہ فلم کے حق میں قادیانی بھی امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہمیں یہاں یہ افسوسناک حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ جب سلمان رشدی نے Satanic Verses لکھی تھی تو اس کا کوئی اُس جیسا جواب نہیں دیا گیا۔ کسی گستاخِ رسول کو مارنے سے زیادہ ضروری تو وہ گستاخی مارنا لازم ہے جس کے سبب سارا خلفشار پیدا ہوتا ہے۔ کار لائل نے جب اپنی کتاب میں بعض احادیث پر جارحانہ تنقید کی تھی تو ہمارے علماءکا جواب معذرت خواہانہ تھا۔ یہ گستاخیاں کوئی آج کی پیداوار نہیں ایک زمانے سے جاری ہیں۔ گستاخانِ رسول یہ بھی جانتے اور اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ کوئی مسلمان کبھی عیسیٰ ؑ کی توہین کا تصور بھی نہیں کر سکتا بلکہ اُن کی ذات اس کے ایمان کا حصہ ہے، گویا اسلامی شرافت بمقابلہ باطلانہ شر آمنے سامنے ہے، اب ایسے میں حُرمتِ رسول کی حفاظت اور ان کے خلاف کھلنے والے منہ بند کرنا، چاہ ہاروت و ماروت کو تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن ایک علاج اس تہذیب و اخلاق کے دعویداروں کی بداخلاقی کا موجود ہے اور وہ ہے 57 اسلامی ممالک کا یکجا ہو کر کم از کم اپنے نبی کی عزت و حُرمت کی حفاظت کرنے کا منصوبہ، لیکن اس پر شاید ہی کوئی اتفاق ہو سکے۔ اب تو آخری چوائس یہی رہ جاتا ہے کہ اگر کسی بھی ملک نے گستاخی¿ رسول کا ارتکاب کیا، تو اس کے خلاف پورے عالم اسلام پر جہاد فرض ہو جائے گا یہ ڈھول تھپڑ کھا کر ہی بجے گا، یا پھر ہم اسے گلے میں ڈال کر بجاتے پھریں گے اور مسلمان نہیں ڈوم کہلائیں گے۔ عالمی قوانین کے تحت صدیوں سے انبیاءکی توہین کے لئے سزائے موت طے ہے۔ یہ قانون آج بھی ویٹیکن میں موجود دستاویزات میں موجود ہے۔ اگر امریکہ کا ایک شخص یا طبقہ توہین رسالت کرے تو اسے عالمی قانون کے تحت وہاں کی عدالتیں سزا سُنائیں۔ اس طرح کسی فردِ واحد یا اس سے زائد کا گناہ کسی پورے ملک کو نہیں بھگتنا پڑے گا۔

ای پیپر دی نیشن