”امریکہ کا دم توڑتا ہوا تسلط“

پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے اسرائیلی نژاد شہری اور اس کے ساتھی امریکی پادری ٹیری جونز پر ہزار لعنت کہ جس نے پیغمبر اسلامﷺکی پاکیزہ شخصیت پر کیچڑ اُچھالنے کی ناپاک فلم تیار کی اور پھر اس کی تشہیر کی، اس واقعہ نے پورے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس پر حکومتی اور عوامی سطح کا ردعمل جاری ہے۔ لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی سفیر کرس ٹیون اور دیگر 4 امریکی سفارتکاروں کی ہلاکت اس امر کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے، امریکہ نے عراق، افغانستان، مصر، لیبیا، یمن اور تیونس میں حکومتوں کے تختے اُلٹنے میں کھلم کھلا اپنا کردار ادا کیا اوران ممالک میں امریکی سی آئی اے کی مدد سے کٹھ پتلی حکومتوں کے قیام کیلئے امریکی ڈالروں کی بھرمار کی لیکن اس کے باوجود ان ممالک میں امریکہ عوام کے دل نہ جیت سکا۔ تمام ممالک امریکہ کے لئے مخالف مورچے کی سی حیثیت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے، جس کا تذکرہ مغربی پریس میں ہو رہا ہے۔ امریکہ کے اتحادی افغانستان سے جلد از جلد نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ صدام حسین کا خاتمہ، اُسامہ بن لادن کی ہلاکت اور کرنل معمر قذافی کی اپنے ہی عوام کے ہاتھوں عبرت ناک موت کو امریکہ اپنے کارناموں میں شمار کرتا ہے۔ اس کے باوجود تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک میں امریکہ کے قدم اب جم نہیں پا رہے۔
ریکارڈ تعداد میں امریکی فوجی اڈوں کا قیام ان ممالک کی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ جیساکہ افغانستان میں 5 بڑے فوجی اڈے مکمل طور پر اپنا کام شروع کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ اس وقت سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور اومان میں امریکی فوجی اڈے مستقل بنیادوں پر آپریشنل حالت میں موجود ہیں۔ان فوجی اڈوں کی نوعیت ان فوجی اڈوں سے مختلف ہے جوکہ اس وقت جرمنی اور فلپائن میں موجود ہیں۔ پوری دنیا میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں یہ امر واضح کر رہی ہیں کہ امریکی حکومت پوری دنیا پر اپنی حکمرانی کے خواب دیکھ رہی ہے۔ عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور ان کے وسائل پر قابض ہونے کی ہوس پوری دنیا کو غیرمحفو ظ بنا چکی ہے۔ بدقسمتی سے پورے عالم اسلام میں اس وقت مسلم ممالک میں کوئی ایسی شخصیت موجود ہی نہیں ہے جوکہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے سوائے ایران کے کہ جس کی قیادت امریکی تسلط کے خلاف آواز بلند کرتی ہے لیکن مسلم ممالک اس کے ساتھ مل کر ایک صف میں کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
9/11 کے واقعہ کے بعد امریکہ نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم دنیا کو اپنے مقاصد کیلئے خوب استعمال کیا ہے اور مسلم ممالک میں امریکہ نواز حکمرانوں کو برسراقتدار لانے کیلئے امریکی سی آئی اے کا پورا پورااستعمال کیا اور حتی ٰکہ پاکستان میں امریکی حکومت کے عہدیدار کھلم کھلا حکومت سازی کے عمل میں شامل رہے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ آج پاکستان کی پارلیمنٹ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد پاس کرتی ہے مگر ڈرون حملے بدستور جاری رہتے ہیں۔ بے بسی کا عالم یہ ہے کہ دفتر خارجہ سے لیکر صدر مملکت اور وزیراعظم سب ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں یعنی سرزمین پاکستان پر ڈرون حملوں کی رسمی مذمت سرکاری پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ ڈرون حملوں کے نتیجے میں پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے، یہ دہشت گردی اب آہستہ آہستہ مسلم ممالک کے مختلف حصوں میں بھی پھیل رہی ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی حکومت پر تو عائد ہوتی ہی ہے لیکن اس کی ذمہ داری پاکستان کے موجودہ حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے جوکہ امریکی پالیسیوں کے آلہ کار بن کر پورے ملک کی سالمیت کو داﺅ پر لگا چکے ہیں۔ کل کے مجاہدین اور آج کے طالبان اور القاعدہ یہ تمام گروپس دراصل خود امریکی سی آئی اے کے پیداکردہ ہیں جوکہ افغانستان میں روسی قبضے کے موقع پر امریکہ کے ”گڈہارس“اور ”گڈبوائز“ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کو جدید اسلحے کی فراہمی، امریکی ڈالرز کی بھرمار اور فوجی تربیت فراہم کی جاتی رہی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اب خود امریکی سی آئی اے اپنے مقاصد کیلئے ان ہی گروپس کے بعض حلقوں کو بدستور استعمال کر رہی ہے، جس میں سرزمین افغانستان پر بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی ”موساد“ کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اسی طرح عراق، مصر، لیبیا، یمن اور تیونس میں بھی اسی طرح کا ایجنڈا ہے جوکہ امریکی سی آئی اے مختلف حربے استعمال کرکے پورا کروا رہی ہے۔ مذہبی اور فرقہ واریت کاہتھیار بھی امریکی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کا اہم حصہ ہے جس کی مزاحمت اب مسلم ممالک میں شروع ہوچکی ہے جوکہ حالیہ دنوں میں سوڈان، لیبیا، یمن اور مصر میں دیکھنے کو ملی ہے۔ اصل مسئلہ تو عوام کا امریکہ کے خلاف اس کی اسلام دشمن پالیسیوں کا ایجنڈا ہے جوکہ وہ مسلمانوں کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔
پیغمبر اسلامﷺ کی شان میں گستاخی پر مبنی فلم اور ماضی میں ڈنمارک کے کارٹونسٹ کی طرف سے توہین آمیز خاکے اسلام دشمنی کی وہ مثالیں ہیں جوکہ مغرب میں اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے خلاف آئے دن کرتی رہتی ہیں۔ ان پر پورے عالم اسلام میں ردعمل ہونا قدرتی امر ہے۔ مغربی ملک جوکہ دوسروں کو انتہاپسندی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں، ان کوبھی اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ امریکی پادری اور اسرائیلی شہری جس نے توہین آمیز فلم پروڈیوس کی، یہ کن کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں؟ امریکی وائٹ ہاﺅس میں جونیئر جارج ڈبلیو بش ہو یا باراک اوباما اور یا پھر کوئی اور امریکی صدر، ان سب کا ایجنڈا ایک ہی ہے۔ پوری دنیا پر امریکہ کی حکمرانی۔ یہ حکمرانی امریکہ اپنی ریاستی دہشت گردی کے ذریعے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ویت نام سے لیکر عراق اور پھر افغانستان، مختلف اوقات میں مختلف حکمت عملی مگر ایجنڈا امریکی تسلط ہی ہے جسے بدقسمتی سے مسلمانوں کے اپنے حکمران اقتدار مافیا کی شکل میں اپنے ممالک میں پورا کروانے میں پیش پیش ہیں۔ مسلم اُمہ میں امریکی اور اسرائیلی سازشیں اب دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں، جس کی جھلک اب مسلم ممالک کے عوام میں پایا جانے وہ جوش و جذبہ ہے جوکہ اسلام کی سربلندی کیلئے ان کے دلوں میں موجزن ہے۔ امریکہ اور امریکہ کی کٹھ پتلی حکومتوں کا زوال جوکہ اب شروع ہوچکا ہے، جس کی ابتداءافغانستان میں امریکہ کی شکست ہے، اس عبرتناک شکست کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج میں شامل فوجی جوانوں کی اکثریت مختلف قسم کے نشوں کی عادی ہوچکی ہے اور ان میں بعض فوجی ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ بے شمار فوجی اسلام قبول کرکے واپس اپنے ممالک جا کر عسکری اداروں سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں، ان تمام عوامل سے امریکہ کے پالیسی ساز اداروں اور امریکہ نواز حکمرانوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن