جدید تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں

Sep 17, 2013

راجہ افراسیاب خاں

یہ خوشی کی بات ہے کہ میاں محمد نواز شریف وزیراعظم جلد از جلد پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کے برابر لانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ تعلیم کے بغیر کبھی کسی ملک نے آج تک ترقی نہ کی ہے۔ افسوس کہ آج ہمارا وطن تعلیم کے میدان میں دنیا کے انتہائی پسماندہ ملکوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اکثر تعلیمی اداروں کو بارود سے اڑا دیا جاتا ہے۔ گویا ہمارے ہاں تعلیم ایک شجر ممنوعہ تصور کی جاتی ہے۔ تعلیم کا نام لینے والے کو بعض اوقات زندگی سے ہی محروم کر دینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ میں یہ بات سمجھنے سے ہر گز قاصر ہوں کہ ایسے حالات میں کس طرح پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ پاکستانی قوم کی ایک مایہ ناز نابالغ بچی ملالہ یوسف زئی کو تعلیم حاصل کرنے کے الزام میں زندگی سے ہی محروم کر دینے کی ایک ناکام کوشش ہو چکی ہے۔ وہ زندگی بچانے کی خاطر آج پاکستان کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ کیا دنیا میں کبھی پہلے ایسا ہوا ہے؟
 خدا کیلئے ہماری قوم عقل و ہوش کے ناخن لے۔ دنیا کدھر جا رہی ہے اور ہمارا قافلہ کس طرح رواں دواں ہے۔
کیا یہ بات ہم نہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی کیلئے تعلیم بھی اتنی ہی اہم اور ضروری ہے جس قدر کہ ہمیں پانی، ہوا اور خوراک وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرہ میں تعلیم کے بغیر کبھی ہماری نشوونما ممکن نہ ہو گی۔ اگر آج پاکستان 100فیصد پڑھا لکھا ہوتا تو وہ دنیا کی سب سے بڑی اقوام میں شامل ہوتا۔ جہالت معاشرے کیلئے ایک ناقابل برداشت بوجھ ہے۔
 آج کے دور میں بھی قوم کے کروڑوں بچے سکولوں سے باہر گلی کوچوں اور بازاروں میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر بچوں کو کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے سخت دلی کوفت ہوتی ہے۔ ان بچوں کا یہ سکول جانے کا وقت ہے۔ کیا پتہ ہے کہ ان میں کتنے گوہر نایاب موجود ہیں۔ اگرمیں آج پاکستان کا وزیراعظم ہوتا تو سب سے پہلے 100فیصد پاکستانی قوم کے بچوں کو سکول داخل کروانے کا قانون بنواتا۔ اس طرح کوئی بھی بچہ آوارہ گردی کرتے ہوئے نہ ملتا۔ آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ پاکستان کے کونے کونے میں لاکھوں ”پرائمری، مڈل، میٹرک“ سکول کھولے جائیں۔ ہرپاکستانی بچے کو سکول بھیجنے کی جنگی بنیادوں پر کام کرتے کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے۔ ہم نے بہت سا قیمتی وقت ضائع کر دیا ہے۔
پاکستان کے تمام ”جیل خانہ جات“ میں سکول کھولے جائیں۔ تمام قیدیوں پر تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ وہ قیدی جو سزائے موت پا چکے ہیں انکے ہاتھوں میں بھی ابتدائی تعلیم کی کتابیں تھما دی جائیں۔ وہ پھانسی کے پھندے پر لٹکنے سے پہلے یہ بات کہہ سکیں کہ وہ بھی پڑھے لکھے ہیں۔
میں بار بار اس بات کو کہتا آ رہا ہوں اور اس بات کو پھر زور دیکر دہراتا ہوں کہ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کو ہر حالت میں حاصل کرنا ہے۔ ان علوم کی وجہ سے ہی ہماری آزادی کی بقا وابستہ ہے۔ ان علوم سے ہماری زندگی کا تعلق ہے۔ ذرا سوچیں اگر ہمارے پاس آج ایٹمی ہتھیار نہ ہوتے تو کیا ہم آزاد رہ سکتے تھے ؟
 دشمن تیزی سے ہمارے گلے کو دبوچنے کیلئے پہنچ چکے ہیں۔ اگر جاپان کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہوتے تو اس کے شہر ناگاساکی اور ہیروشیما تباہ و برباد نہ ہوتے۔ میں امن و امان کا پجاری ہوں۔ جنگ و جدل کیخلاف ہوں۔ اسلام ہمیں امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے۔ قرآن پاک کا حکم ہے کہ اگر ایک بھی بے گناہ کو قتل کیا گیا تو گویا ساری دنیا کا قتل عام کر دیا گیا ہے۔
ہم پر یہ بھی فرض ہے کہ ہم امن کی خاطر اپنے گھوڑے ہر وقت تیار رکھیں۔ ہماری ملک و قوم کی آزادی صرف اور صرف اس وقت ہی قائم و دائم رہ سکتی ہے جب ہم آزادی کی قیمت ادا کرنے کیلئے ہر وقت تیار کھڑے ہوں۔ دشمن ہمیں کبھی بھی سنبھلنے کا موقع نہ دیگا۔
ہمیں تعلیم کو سرفہرست رکھنا پڑیگا۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کر دیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ فی الحال بجٹ کا 5فیصد تعلیم کے فروغ کیلئے رکھیں۔ تعلیم کی طرف توجہ نہ دینا یا اس کو ثانوی حیثیت دینا میرے نزدیک اپنی ذات سے دشمنی کے برابر ہو گا۔ یا آپ اس کو اجتماعی خود کشی کے برابر خیال کر سکتے ہیں۔ گویا ہم اپنے ہی ہاتھوں سے قومی بنیادوں کو کھوکھلا کرتے چلے جائینگے۔
یقین کریں کہ جب سے میں نے اخبارات میں یہ خبر پڑھی ہے کہ قوم کے 2½کروڑ بچے اب بھی سکولوں سے باہر ہیں تو یہ بات میرے انتہائی صدمے اور دکھ کا موجب بنی ۔ کیا ہم سب کیلئے رونے کا مقام نہ ہے۔ میں ہر گز جذباتی نہ ہوں۔ میں تو ٹھنڈے دل و دماغ سے دوسروں کی بات سننے کا عادی ہوں۔ ہمارے حکمران تعلیم کو عام کرنے کیلئے قوم پر ایک خاص تعلیمی ٹیکس لگائیں۔ قوم خوشی خوشی یہ مالی بوجھ بھی اٹھانے کو تیار کھڑی ہو گی۔پارلیمنٹ کا ایک خاص ہنگامی اجلاس بلائیں۔ اس اجلاس کا صرف اور صرف ایک ہی نکتے کا ایجنڈا ہو گا کہ تعلیم کو کس طرح ہم آئندہ پانچ سالوں میں 100فیصد کی حد تک لے جا سکتے ہیں۔ تعلیم کو عام کرنے کیلئے افواج پاکستان سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔
 ہماری قومی فوج ہے وہ یہ کام کرنے کیلئے دن رات تیار ہو گی۔ جس قدر ہمارے ہاں تعلیم ہو گی اس قدر ہمارا ملکی دفاع بھی مضبوط ہو گا۔ سائنسی تعلیم اور دفاع 100فیصد ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

مزیدخبریں