بزرگ شہری اور حکومتی اقدام

 حکومت پاکستان نے اندازہ لگایا کہ اس ارض پاک میں تقریباً 28 لاکھ اور 59 ہزار عمر رسیدہ لوگ شریک محفل ہیں۔ ان کی عمر 70 سال سے اوپر ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی عزت افزائی کی جائے۔ ہمارے ملک کی اوسط عمر 60 سال سے کم ہے مگر 60 سال کی عمر میں حکومت کے ملازمین ریٹائرڈ کئے جاتے ہیں۔ مختلف ممالک میں اوسط عمر اپنے حالات، صحت کے اصولوں کے مطابق ہے۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا ہماری اوسط عمر 52 برس تھی۔ اس وقت سری لنکا کی اوسط عمر 70 برس ہے۔ وہاں تعلیم، صحت کا معیار اوپر ہے جو لوگ 60سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو گئے، پنشن لینے لگے ہیں۔ 70 سال تک کم ہی پہنچتے ہیں۔ ایسے بزرگ حضرات استحقاق چاہتے ہیں۔ تاکہ شہر کی گلیوں، بازاروں، ہسپتالوں میں عزت مند رہیں۔ 60 سال سے 70 سال تک کا عرصہ گزرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اس کو مناسب خوراک، گرمی اور سردی سے بچائو کے لئے بجلی کے بل، پانی کی فراہمی پنشن سے کیسے میسر آئے گی؟ ریٹائرمنٹ پر جانے سے ایک دن قبل وہی شخص سیاہ وسفید کا مالک ہوتا ہے۔ سرکاری گاڑی، جھنڈا، ڈرائیور، کوٹھی، نوکر چاکر میسر آتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ اپنی گاڑی سے اترتا ہے کوئی دروازہ کھولنے والا نہیں آتا۔ بل خود جمع کرانے جاتا ہے۔ ہسپتال میں اسے لوگ وقت نہیں دیتے، اسے اپنے گھر میں اندھیرا نظر آتا ہے۔ مایوسی اسے ہر طرف سے کھاتی ہے۔ 
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کی خدمت کی۔ ان کی عمر 65-70 ہے۔ ان کی عزت افزائی کی جاتی۔ خود حکومت کے مسائل حل کرنے میں مدد کرے۔ نظر ایسا آتا ہے کہ گزشتہ حکومت نے اپنے لوگوں کے لئے یہ راستہ اختیار کیا ہے کہ منتخب اسمبلی کے ممبر، خدمت کمیٹی، ڈپٹی کمشنر سے فارم تصدیق کئے جائیں۔ اب بھلا 70 سال کے بوڑھے جن میں سے بیشتر کی نظر (بینائی) کم ہے، بہت سارے اونچا سننے والے، بہت سارے لاغر، کئی ایک کے گھٹنے بیکار، وہ کن کن کے پاس جائیں گے کہ تصدیق کی جائے؟ بھلا کتنے بزرگوں کی جسمانی، دماغی کیفیت، ذہنی قواع  درست ہوں گے۔ صرف سیاست دان ہی قوت مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ 
ہمارے ایک دوست نے اس مہم کا پیچھا کر رکھا تھا کہ وہ بزرگ شہری ہیں۔ وہ ہمیں مسلم لیگ کے دفتر واقع ڈیوس روڈ لے کر چلے گئے۔ وہاں کچھ پتہ نہ چلا پنجاب مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری  کے دفتر سے غیر سرکاری طور پر علم ہوا کہ ہر ایم این اے اور ایم پی اے اپنے اپنے علاقوں سے 15 افراد مسلم لیگ کے ورکرز نامزد کئے جائیں گے۔ تحریک کارکنان پاکستان کے دفتر نے بھی ایسا ہی پیغام سنایا کہ پرانے پاکستان کے ورکرز کو نامزد کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو بزرگ شہری کا خصوصی پیکیج نہ ہوا۔ بھلا سارے پاکستان، تربت، خیبر، کاغان اور چولستان سے کیسے بزرگ شہری 70 سال سے اوپر اسلام آباد کا سفر کریں گے۔ مایوسی ہر طرف ایسی عمر میں ہوتی ہے۔ نہ تو وہ زیادہ دیر بیٹھ سکتے ہیں۔ نہ طویل سفر کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اس عمر میں خوراک کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ دانت تو ہوتے ہی نہیں ہیں۔ اگر ایک آدھ رہے تو اس میں درد ہوتا ہے۔ اگر مصنوعی دانت لگوا رکھے ہیں تو وہ تکلیف دیتے ہیں۔ گھٹنے کے بے شمار ایسے فزیکل مسائل ہوتے ہیں کہ وہ کیسے دفاتر میں گھوم پھر سکیں گے؟ 
بڑھاپا قدرتی امر ہے کہ قرآن میں آیا ہے کہ خدا ہی تمہیں پیدا کرتا ہے۔ عمر رسیدہ بناتا ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے پھر تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے۔ پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جائو۔ پھر اور بڑھتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچ جائو اور تم میں سے کوئی پہلے واپس بلالیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے کہ تم اپنے وقت مقررہ کو پہنچ جائو اور حقیقت کو سمجھ لو۔ وہی ہے زندگی دینے والا اور وہی موت دینے والا ہے۔ وہ جس بات کا فیصلہ کر لیتا ہے بس حکم دیتا ہے کہ وہ ہو جائے تو وہ ہو جاتی ہے۔ (پارہ 24 آیت66-69) 
لہٰذا بلاامتیاز عمر رسیدہ لوگوں کو اس پیکیج میں شامل کیا جائے جو 65-70 سال کی عمر کے ہیں تاکہ صحت مند شہری مردوزن یعنی دونوں ماں باپ اپنے علم اور تجربہ کو پاکستان کی ترقی میں صرف کریں۔  
آئیے شہری کی تعریف دیکھتے ہیں کسی ریاست (پاکستان) اپنا ڈومیسائل ضلعی حکام سے حاصل کر سکتا ہے۔ شہری صرف شہر کے رہنے والے، تحریک پاکستان کے سابق کارکن مسلم لیگ کے ورکر، اپنے پسند کے لوگوں کو نہیں کہا جاتا بلکہ ہر وہ پاکستانی جو شہر، بستی، گائوں میں سکونت  پذیر ہو اسے انگریزی زبان میں سٹیزن کہا جاتا ہے جس کا ترجمہ شہری کیا گیا ہے۔ شہری میں تفریق نہیں کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔   
لہٰذا بلاتفریق بزرگ لوگوں کو تلاش کیا جائے۔ ان کو سلام پیش کیا جائے۔ ان کی بیماری سے تیمار داری کی جائے۔ ان کو صحیح مشورہ اور خیر خواہی کا اظہار کیا جائے۔ ان کی جان و مال کی حفاظت کی جائے۔ دفاتر میں ان کی عزت کی جائے۔ ان کی زندگی جو انہوں نے بھرپور طریقے سے گزاری ہے۔ فائدہ اٹھایا جائے۔ بزرگوں سے فائدہ صرف ان کے تجربہ سے لیا جا سکتا ہے۔ تجربہ غلطیوں کے بعد میسر آتا ہے۔ تجریہ کا نعم البدل کچھ نہیں۔ 
حکومت کا ایسا قدم  احسن ہے، اس سے اندرونی طور پر لوگ خوش ہوں گے۔ خدا بھی راضی  ہو گا مگر صلح رحمی اور والدین کے حقوق جدا ہیں۔ قرآن میں سورہ بنی اسرائیل 22 میں ’’والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ہو یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو۔ بلکہ ان سے احترام کے ساتھ پیش آئو بات کرو ’’لہذا ہمیں ایک ایسا فضا پیدا کرنی ہے جس میں لوگ خود بخود بزرگوں کی عزت کریں۔ اس میں مزید ایک ذمہ داری آ گئی۔ اخلاقی  فرض ہے۔ ہمیں اپنی عمر رسیدہ مائوں کی قدر بھی کرنی ہے۔ ان کی فضیلت سے استفادہ کرنا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں عمر رسیدہ  عورتوں کو بھی وہی مقام ملنا چاہئے۔ لہٰذا سینئر سٹیزن  میں مردوعورت سارے شہری آتے ہیں اس میں مفاد کسی ایک طبقے کے لئے نہ ہو اخلاقی ذمہ داریاں سب کے لئے ہوں ہمیں بیرونی ممالک  جانے کا اتفاق ہوا۔ سینئر سٹیزن کے لئے کرایہ میں کمی ہے۔ جہاز میں انہیں پہلے جگہ دی جاتی ہے۔ ہر دفتر میں کارندے ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آتے ہیں۔ معاشرہ میں اسلامی ریاست کی امتیازی خصوصیات پھیلانے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کے لئے شہریوں کے حقوق اچھی طرح بیان کرنے ہیں تاکہ نئی نسل کو سنیئر سٹیزن کے حقوق سے آگاہی ہو اور ان کا بڑھاپا اچھا ہو گا۔  

ای پیپر دی نیشن