عالمی برادری‘ ہمسایہ ممالک دہشت گردوں کو تربیت‘ رقم‘ اسلحہ کی فراہمی روکنے میں مدد کریں : نوازشریف

انقرہ (سلیم بخاری / دی نیشن رپورٹ) وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ عوام نے انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے، پاکستان کور ایشو مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی عالمی طور پر پائی جانے والی کیفیت ہے اور اس کے خلاف لڑنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انقرہ پہنچنے کے بعد ترک ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن (TRT) نیٹ ورک سے انٹرویو کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے متعدد قومی و عالمی امور پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے ترکی آمد کو اپنے گھر آنے سے تشبیہہ دی، بھارت اور افغانستان سے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تمام ممالک خصوصاً ہمسایہ ممالک سے مضبوط اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کا قیام ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کا محور ہے۔ اپنے مؤثر سماجی اقتصادی ایجنڈا کے لئے تمام ہمسایہ ممالک سے تعلقات کا قیام میری حکومت کی اولین ترجیح اور ایک لازمی جزو ہے۔ جموں و کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے ہم بھارت سے جامع مذاکرات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ عمل اس وقت شروع کیا تھا جب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی 1999ء میں پاکستان کے دورے پر آئے اور ہم مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے بالکل قریب تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام چاہتا ہے، ہم اس کی حمائت کرتے رہیں گے، ہم افغانستان میں مفاہمت اور افغانستان کی زیر نگرانی امن عمل کی حمائت کرتے ہیں۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ مضبوط اقتصادی اور تجارتی شراکت چاہتا ہے، جس کا میں نے صدر کرزئی کے دورہ کے موقع پر ذکر کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑنا میری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی اب عالمی لعنت بن چکی ہیں، دنیا کا کوئی ملک اس سے نہیں بچا، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی نے ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے سنگین چیلنجز پیش کئے ہیں۔ ہم نے اس میں بہت سا انسانی، اقتصادی اور سماجی نقصان اٹھایا ہے۔ معاشرے سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہمارا عزم مصمم ہے۔ اس حوالے سے میں نے حکومت کے ساتھ ہاتھ ملا کر چلنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلائی، اس کا مقصد دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جامع پالیسی مرتب کرنا تھا، 9 ستمبر کی یہ اے پی سی کامیاب رہی۔ انہوں نے دورہ ترکی کے حوالے سے کہا کہ ترکی کا دورہ ایسے ہی ہے جیسے میں اپنے گھر آیا ہوں، یہ ہمیشہ میرے لئے انتہائی مسرت کا باعث رہا ہے۔ اس دورہ کے لئے میرے پاس دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لئے ایک ایجنڈا ہے، اس حوالے سے میں ترک صدر عبداللہ گل، وزیراعظم طیب اردگان اور ان کی کابینہ کے ارکان سے دوطرفہ سیاسی اور اقتصادی امور پر بات کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں طیب اردگان کے ساتھ ہائی لیول کوآپریشن کونسل کے تیسرے اجلاس کے مشترکہ اجلاس کی صدارت بھی کروں گا۔ یہ اعلیٰ ترین سیاسی سطح کا دوطرفہ مفید پلیٹ فارم ہے۔ جبکہ میں نے پہلے بھی کہا اقتصادی ایجنڈا میری حکومت کی اولین ترجیح ہے اور یہ ہمارے دوطرفہ مذاکرات میں ایک سرکردہ کردار ادا کرے گا۔ اس کے علاوہ 18 ستمبر کو استنبول میں بزنس فورم کا اجلاس ہو گا جس میں ترک بزنس مینوں سے باہم رابطہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان، شام، مصر سمیت علاقائی امور پر بھی با ت ہو گی، ہم شام کے بارے میں ترکی کے مؤقف سے بخوبی آگاہ ہیں، ہمیں شام کے حالات کے بارے میں تشویش لاحق ہے اور توقع ہے یہ مسئلہ پرامن طور پر شام کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہو گا۔ آن لائن، این این آئی، اے پی اے کے مطابق ترک اخبار ’’ٹوڈیز زمان‘‘ سے انٹرویو میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ ترک کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، ہم انہیں مکمل قانونی تحفظ فراہم کریں گے، ترکی اور پاکستان کے درمیان خصوصی شراکت داری ہے، یہ دوستی میرے دورے سے مزید مستحکم ہو گی، پاکستان افغانستان میں امن و مفاہمت کیلئے سب کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا، اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، خطے میں دہشتگردی ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک دہشت گردوں کو رقم، اسلحہ اور تربیت کی فراہمی روکنے میں تعاون کریں تو اس لعنت پر قابو پایا جا سکتا ہے، امن اور مفاہمت کیلئے صرف سیاسی جماعتوں سے ہی نہیں بلکہ ان سے بھی بات چیت کیلئے تیار ہیں جو انتہا پسندی چھوڑ دیں تاکہ مزید جانیں ضائع نہ ہوں، طاقت کا استعمال آخری آپشن ہو گا۔ امریکہ کی ڈرون حملوں کی پالیسی نا صرف پاکستان کی سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے شدت پسندی بڑھ رہی ہے، امریکہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ میرے دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی بنیاد رکھنا ہے،دونوں ملکوں کے درمیان جذباتی تعلقات ہیں، تاہم ہمیں شاندار سیاسی تعلقات کو ٹھوس تجارتی روابط میں بدلنا ہے۔ ترکی کے تاجر اور ادارے پاکستان میں توانائی، ڈھانچے، انجینئرنگ، زرعی صنعت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کریں، لاہور میں میٹرو بس اور سندھ میں ونڈ انرجی جیسے منصوبوں سے ترک کمپنیوں نے کامیابیاں حاصل کی ہیں، پاکستان سرمایہ کاری کیلئے سازگار ملک ہے، ہم مقامی اور غیر ملکی کمپنیوں کو مساوی مواقع فراہم کرتے ہیں، انہیں مکمل قانونی تحفظ دیں گے۔ ترکی ایشیا اور یورپ کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان توانائی کے ذخائر سے معمور وسطی ایشیا کیلئے گیٹ وے بن سکتا ہے، دونوں ملکوں کے تعلقات مثالی ہیں، وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے تھوڑے عرصے بعد ترکی کا دورہ اس اہمیت کا عکاس ہے جو ہم ترکی سے اپنے تعلقات کو دیتے ہیں۔ پاکستان کو مختلف مقامی اور علاقائی مسائل کا سامنا ہے، جس پر ترک قیادت سے بات چیت ہو ٖگی۔ حکومت پاکستان اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو اپنی تقدیر سمجھتی ہے، اس مقصد کیلئے ہم ترکی سے تعاون بڑھانا چاہتے ہیں، افغانستان، پاکستان اور ترکی کا تین ملکی رابطہ انتہائی اہم ہے، جس کا مقصد افغانستان میں امن، استحکام اور معاشی واقتصادی ترقی ہے، ہم ترکی کے مسلسل تعاون پر شکرگزار ہیں۔ 2014ء میں غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال ہمارے لئے چیلنج ہو گی۔ ہمارے سیاسی تعلقات انتہائی شاندار ہیں تاہم انہیں تجارتی واقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنا ہوگا،میرے دورے کا مقصد بھی یہی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن واستحکام کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے، افغانستان میں امن و مفاہمت کیلئے میری حکومت مخلصانہ حمایت جاری رکھے گی،ہمیں امید ہے کہ عالمی برادری کی حمایت سے افغانستان کے ریاستی ادارے 2014ء کے بعد ملک میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیںگے اور 2014ء کے بعد افغانستان کی ترقی کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ جموں وکشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانا مسئلہ ہے، سلامتی کونسل کی قراردادیں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے پر زور دیتی ہیں تاکہ کشمیری عوام اپنا خود ارادیت استعمال کر سکیں، مجھے امید ہے کہ اقوام متحدہ اس تنازعے کے حل میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ کنٹرول لائن پر حالیہ کشیدگی ہمارے لئے تشویش کا باعث ہے تاہم پاکستان تحمل و ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہے گا،میں پاکستان کے اس عزم کو دوہراتا ہوں کہ ہم بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات سنجیدہ ٹھوس اور تعمیری بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے عوام کو غربت وجہالت سے نکالنے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت مل بیٹھے اور ان مسائل پر توجہ دی جائے، میں نے خطے میں پائیدار امن کیلئے ہمیشہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کو ترجیح دی ہے، ترکی اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ترکی پاکستان کا بااعتماد دوست ہے اور وہ بھارت سمیت کسی بھی ملک سے اپنے تعلقات قائم کرنے میں آزاد ہے، پاکستان نے ہمیشہ قبرص کے مسئلے پر ترکی کی حمایت کی ہے، ہمیں یقین ہے کہ ترکی بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی مؤقف کی حمایت جاری رکھے گا۔ خطے میں دہشت گردی کی لعنت ماضی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑنا ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے، پاکستان کو اس مقصد کیلئے عالمی برادری اور ہمسایہ ممالک کی مدد درکار ہے تاکہ دہشت گردوں کو رقوم،اسلحہ اور تربیت کی فراہمی روکی جا سکے۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد میں نے ملک کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی، باہمی مشاورت اور مفاہمت کی یہ پیشکش صرف سیاسی جماعتوں کیلئے نہیں، ہم ان سے بھی بات چیت کیلئے تیار ہیں جو انتہا پسندی چھوڑنے پر تیار ہوں، ہمارے پاس دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے ایک سے زیادہ راستے ہیں،لیکن طاقت کا استعمال آخری آپشن ہو گا کیونکہ ہم مزید بے گناہ جانوں کا ضیاع نہیں چاہتے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کوئی سرحدیں نہیں،یہ ایک عالمی چیلنج ہے، پاکستان اور امریکہ سمیت عالمی برادری کا اسی میں مفاد ہے کہ دہشت گردی ختم ہو۔ پاکستان میں سماجی تبدیلی کے نئے فریم ورک کی ضرورت ہے جہاں سب کو مساوی مواقع حاصل ہوں، سماجی انصاف ملے، غیریبوں اور پسماندہ طبقوں کو تحفظ حاصل ہو، اس مقصد کیلئے تعلیم ہماری اولین ترجیح ہے اور اس کیلئے مالیاتی وسائل فراہم اور ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ ہمارا نجی شعبہ اقتصادی طور پر سب سے آگے ہیں، پاکستان میں تمام شعبے غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے کھلے ہیں، ترکی کے سرمایہ کاروں کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ انقرہ (نوائے وقت روپرٹ + ایجنسیاں) وزیراعظم نوازشریف نے ترک ہم منصب رجب طیب اردگان سے غیر رسمی ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انقرہ پہنچنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور رجب طیب اردگان کے درمیان غیر رسمی ملاقات ترکی کے وزیراعظم کی خصوصی دعوت پر ہوئی، دونوں رہنمائوں کے درمیان باضابطہ ملاقات آج ہوگی۔ غیر رسمی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات باہمی دلچسپی کے امور خطے کی مجموعی صورتحال اور دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں جہاں ترکی کے تاجر سرمایہ لگا سکتے ہیں، پاکستانی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ اور پرکشش مراعات فراہم کررہی ہے جس سے ترکی کے تاجروں کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان گہرے برادران اور دوستانہ تعلقات موجود ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہورہے ہیں، پاکستان ترکی کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ ہماری تاریخ اور کلچر مشترکہ ہے۔ پاکستان بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور تصفیہ طلب مسائل کا بات چیت کے ذریعے حل چاہتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور خطے میں قیام امن کیلئے مجھے عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔ پاکستان اپنے پڑوس میں مضبوط اور مستحکم افغانستان کا خواہش مند ہے ، افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہم افغان مفاہمتی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ مستحکم ا فغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔ میں ایک بڑے ایجنڈا پر ترکی آیا ہوں۔ امید ہے اس دورے کے دونوں ملکوں کے تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ ترکی کے ساتھ فوجی تعاون اور لڑاکا ہیلی کاپٹر بنانے کے شعبے میں تعاون اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ ترکی اور پاکستان کے عوام نے جمہوریت کیلئے مثالی جدوجہد کی ہے آمریت کے خلاف رجب طیب اردگان اور ہماری جدوجہد مشترکہ ہے۔ ترکی کے وزیراعظم نے نوازشریف اور ان کے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے دورے پر شکریہ ادا کیا اور پاکستان کیلئے ہر ممکن مدد اور تعاون کا یقین دلایا۔ رجب طیب اردگان نے وزیراعظم نوازشریف کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا جس میں خاتون اول بیگم کلثوم نواز، اسحاق ڈار، شہباز شریف، عبدالمالک بلوچ، سید قائم علی شاہ،خرم دستگیر ، عثمان ابراہیم اور وفد کے دیگر ارکان نے شرکت کی۔ قبل ازیں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جب انقرہ میں ائرپورٹ پر پہنچے تو ترکی کے وزیر برائے اربن پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اردگان بیراکتر نے انکا استقبال کیا۔ اس موقع پر سینئر سیاستدانوں سول اور فوجی حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعظم کے دورے کے دوران ہاؤسنگ، تعلیم، ثقافت اور تجارت سمیت مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں / معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف استنبول میں بزنس فورم سے خطاب بھی کریںگے۔ پاکستان ترکی اعلیٰ سطح تعاون کونسل کا انعقاد 2009ء میں ہوا جس کا مقصد تجارت، مواصلات، توانائی، سرمایہ کاری، تعلیم، ثقافت، زراعت اور دوسرے شعبوں میں باہمی تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینا اور مستقبل کے حوالہ سے تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنا ہے۔ اعلیٰ سطح تعاون کا پہلا اجلاس انقرہ میں جبکہ دوسرا سال 2012ء میں اسلام آباد میں ہوا تھا۔ وزیراعظم ترکی سے برطانیہ اور فرانس کا بھی 3 روزہ غیر سرکاری دورہ کریں گے اور بعدازاں برطانیہ سے امریکہ جائیں گے جہاں ان کی امریکی صدر اور بھارتی وزیراعظم منموہن سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ وزیراعظم کو دورہ ترکی کے دوران ترک حکومت کی طرف سے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھی دیا جائیگا۔ واضح رہے کہ پاکستان بھی ایسا ہی ایوارڈ ترک وزیراعظم کو دے چکا ہے، امکان ہے کہ وزیراعظم کے دورہ ترکی کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان معاشی اور اقتصادی تعاون کے 9 معاہدوںپر دستخط ہونگے۔ وزیراعظم انقرہ میں ایوارڈ یافتہ سستے رہائشی منصوبے کا بھی دورہ کریں گے۔ 18 ستمبر کو استبول میں بڑے بزنس فورم سے خطاب کریں گے، ترکی کے بڑے تجارتی گروپوں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کریں گے۔ امکان ہے کہ نیویارک میں نوازشریف کی سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات ہو جو ستمبر کے آخری ہفتے میں پیپلز پارٹی نیویارک کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالئے میں شرکت کریں گے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے دورہ ترکی سے دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے، پاکستان اور ترکی میں قریبی برادرانہ تعلقات قائم ہیں، دونوں ملکوں کی قیادت ان تعلقات کو تمام شعبوں تک توسیع دینے اور انہیں مستحکم کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی میں قریبی برادرانہ تعلقات قائم ہیں اور دونوں ملکوں کی قیادت ان تعلقات کو تمام شعبوں تک توسیع دینے اور انہیں مستحکم کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ اس دورے سے پاکستان میں اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں کو فروغ ملے گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق نوازشریف نے کہا کہ دہشت گردی سے ہماری معیشت بری طرح متاثر ہوئی، افغانستان اور مشرقی سرحدوں پر امن چاہتے ہیں، پاکستان اور خطے میں امن چاہتے ہیں، پاکستان کو دہشت گردی سے بہت نقصان ہوا۔ 40ہزار پاکستانی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...