پوری قوم ہیجان کا شکارہے۔ ایسے ماحول میں اچھی خبر تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ قارئین کا حق ہے کہ انکے ساتھ بھی شیئر کی جائے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں الیاس ہمارا واحد کلاس فیلو تھا جس کے پاس اپنی کار تھی۔ ایک متموّل صنعتکار گھرانے کا نوجوان ہونے کے باوجود اس میں امیر لڑکوں والے لچھّن نہیں تھے۔ گھر میں شرافت اور مذہبی اقدار کا راج تھا۔ میرے ساتھ اسکی پہلے ھیلو ہائے ہوئی اورکالج سے نکلنے تک دوستی ہوگئی۔
الیاس مزید پڑھائی کیلئے برطانیہ چلا گیااسلئے ملاقاتیں کم ہوگئیںمگر جب بھی ملتے اسکی طرف سے خلوص اور گرمجوشی کا بھرپور اظہار ہوتا۔ پھر میں سول سروس میں آگیا اور اس نے اپنی انڈسٹری سنبھال لی۔ ہم ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہے۔ رمضان میں فون پر بات ہوئی تو اس نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ" والدہ صاحبہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ گردے میں کینسر detectہوا ہے جو تیزی سے پھیل رہاہے۔ پاکستان کے تمام بڑے ڈاکٹروں نے رپورٹوں کا معائنہ کیا ہے کوئی بھی امّی کے بڑھاپے اور کمزور صحت کے سبب آپریشن کرنے کا رسک لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سینئر ڈاکٹر بھی باہر لے جانے کا مشورہ دیتے ہیں لہٰذا ہم انہیں برطانیہ لے جارہے ہیں دُعا کرنا"۔ میں نے دل سے دعائیں مانگیں کہ "اے قادرِ مطلق! ماں کو اس قدر چاہنے والوں کو دعاؤںاور برکتوں کے خزانے سے محروم نہ کرناــ"۔ الیاس اپنی اَٹھترّسالہ والدہ کو سپیشل ائر ایمبولینس کے ذریعے برطانیہ کے بہترین ہسپتال Princess Grace Hospital لے گئے جہاں پہنچتے ہی ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم نے CTسکین، PATسکین، MRIاور دیگر ٹیسٹ شروع کردئیے۔والدہ کی تیمارداری کیلئے الیاس کا سارا کُنبہ بھی برطانیہ چلا گیا اور انکی عید ہسپتال میں والدہ کے بَیڈ کے ارد گرد گذری۔ عید پر فون کیا تو الیاس پریشان تھے کہنے لگے سینئر ترین ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کئے ہیں مگر کوئی تسلّی بخش جواب نہیں دے رہے۔ کینسر پھیل کر پھیپھڑوں تک جانے کا خطرہ ہے مگر یہ آپریشن کرنے کی حامی نہیں بھر رہے۔ بس دعا کرنا"۔ چند روز بعد فون کیا تو کہنے لگے کہ" برطانیہ کے ڈاکٹروں نے بھی جواب ہی دے دیا ہے اب امریکہ لے جانے کا سوچ رہے ہیں۔ آپ دعا کریں"۔ آپریشن کے بغیر ہی ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹرز سواکروڑ روپیہ وصول کرچکے تھے۔
اگلے روز پھر فون آیا۔ الیاس کہنے لگے" تم جانتے ہو والدہ صاحبہ ضعیف بھی ہیں اور کمزور بھی، امریکہ کا طویل سفر کرنا ان کیلئے بہت مشکل ہے۔ رپورٹیں دیکھ کر وہاں کے ڈاکٹر بھی آپریشن کرنے کا رسک لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اسلئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم والدہ کو پاکستان ہی لے آئیں۔ اﷲکرے کہ اپنے ماحول میں اپنے عزیزوں کے درمیان انکی طبیعت کچھ سنبھل جائے"۔ وہ پاکستان پہنچے تو میں نے فون کیا کہ کل میں خالہ جی کی عیادت کیلئے لاہور آؤنگا۔ کہنے لگے نہیں ہم انہیں لیکر اسلام آباد آرہے ہیں۔ میں نے چونک کر پوچھا کس لئے؟ کہنے لگے آپریشن کرانے کیلئے؟ میں نے کہا جس Riskyآپریشن کا بیڑہ یورپ کے قابل ترین ڈاکٹروں نے نہ اٹھایا وہ آپریشن کرنے کا آپ کو کون مشورہ دے رہا ہے؟ ۔ کون ہے ایسے مشورے دینے والا ڈاکٹر؟ کہنے لگے وہ ڈاکٹر نہیں۔ میں نے پوچھا پھر کون ہے؟ کہنے لگے "وہ فرشتہ ہے اور میں دیکھتے ہی اس پر ایمان لے آیا ہوں"۔
ڈاکٹر سعید اختر ایک معروف یورالوجسٹ ہیں۔ امریکہ کے کئی ہسپتالوں میں یورالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ رہے ہیں۔ سال میں آٹھ نو مہینے شفا انٹرنیشنل ہسپتال، اسلام آباد میں کڈنی ٹرانسپلانٹیشن میں مصروف رہتے ہیں اور باقی عرصہ امریکہ میں گذارتے ہیں۔ آمدنی کا زیادہ حصّہ اﷲ کی راہ میں خرچ کردیتے ہیں۔ کسی عزیز نے ان کا ذکر کیا تو الیاس نے ان سے نیو جرسی (امریکہ) میں رابطہ کرکے والدہ کی بیماری کے بارے میں آگاہ کیا اور تمام رپورٹیں بجھوادیں۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں فون کرکے بتایا کہ مریضہ کی عمر اور صحت کے باعث مسئلہ تو بہت complicatedہے لیکن وہ چند روز بعد اسلام آباد آرہے ہیں آپ والدہ کو لے کر شفاء انٹرنیشنل آجائیں۔ اﷲخیر کریگا۔
پوری فیملی کو آپریشن کے بارے میں شدید خدشات تھے کہ کینسر زدہ گردے کے جس کیس کو برطانیہ اور امریکہ کے چوٹی کے ڈاکٹر ہاتھ لگانے سے گریزاں تھے اسے ایک پاکستانی ڈاکٹر پاکستان کے ہسپتال میں کیسے سنبھال سکے گا؟ ان تمام خدشات کے باوجود میاں الیاس اور انکی مدّبر اور باوقار ہمشیرہ باجی نصرت نے آپریشن کے حق میں فیصلہ کیا۔ 27اگست کو والدہ آپریشن تھیٹر میں گئیں تو سارے کنبے نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لئے اور قادرِ مطلق سے والدہ کی صحت یابی کی دل سے دعائیں مانگیں۔ موت وحیات کے مالک نے ڈاکٹر سعید اختر کے ہاتھوں معجزہ دکھا دیا۔ چار گھنٹے کا آپریشن ہوا جس میں سرطان زدہ گردے کے علاوہ gallbladderبھی جسم سے نکال دیا گیا۔ جو کارنامہ برطانیہ کے چوٹی کے ڈاکٹر نہ کرسکے وہ ایک پاکستانی ڈاکٹر نے اپنے ملک میں کردکھایا۔ آپریشن کی کامیابی پرماں کی خدمت گذاراولاد سجدہء شکر میں گرگئی۔ یورپ اور امریکہ کے ہسپتالوں کے معیار اور Post Operative Careکا مکمل ادراک رکھنے والے اس گھرانے کو اس بارے میں تشویش تھی۔مگر بعداز آپریشن نگہداشت کیلئے شفاء انٹرنیشنل کے بہترین SOPsدیکھ کرسب کو خوشگوار حیرت ہوئی اوریہ سب کچھ اپنے ملک میں ہوا۔ خالق نے دعائیں قبول کیں۔ چند روز ہسپتال میں رہنے کے بعد اب وہ والدہ محترمہ کو لیکر لاہور چلے گئے ہیںاور مریضہ صحت یاب ہورہی ہیں۔ وَیل ڈن ڈاکٹر سعید اختر وَیل ڈن ! پوری قوم کو آپ جیسے لائق فرزندوں پر فخر ہے آپ پاکستان کے ہیرو ہیں۔ ہمیں اس بات پر ناز ہے کہ ہمارے ملک میں ڈاکٹر سعید اختر اور ڈاکٹر ادیب رضوی (کراچی)جیسے یورولوجسٹ اور ڈاکٹر اطہر انعام (کراچی) جیسے قابلِ نیوروسرجن موجود ہیں۔
میاں الیاس صاحب کا ابھی ابھی میسج آیا ہے آپ بھی سن لیں "میں بے پناہ مسرّت اور افتخار کے ساتھ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے اپنے ملک میں اتنے قابل ڈاکٹرہیں کہ باہر کے ڈاکٹران کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مجھے اس بات پر شرمندگی ہورہی ہے کہ ہم جیسے صنعتکار، بزنس مَین اور ہمارے سیاستدان علاج کیلئے یورپ اور امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے اپنے ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ یہاں شفاء انٹرنیشنل جیسے عالمی معیار کے ہسپتال بھی ہیں اور ڈاکٹر سعید اختر جیسے فرشتہ سیرت ڈاکٹربھی، جن کے ہاتھ میں دوا بھی ہے اور شفاء بھی۔ مجھے اپنے پیارے ملک پاکستان اور یہاں کے قابل اور ھمدرد مسیحاؤں پر فخر ہے___ جیوے میرا پاکستان۔پاکستان زندہ باد"۔