وصیتوں کی رنگا رنگ دھنک

مغربی اور مشرقی دنیا میں وصیت کرنے کا فیشن عرصہ دراز سے مرغوب چلا آ رہا ہے۔ کچھ علاقوں میں وصیت کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ جب تک کسی بڑے بوڑھے سربراہ خاندان کو معقول وصیت نہ سوجھے وہ اپنی موت کی گھڑی کو معرضِ التواءمیں ڈالے رکھتا ہے۔اولاد لاکھ جتن کرے اسے یقین دلائے کہ آپ کا مر جانا خاندان کیلئے بہت مفید ثابت ہو گا اورآپ کے انتقال پر ملال سے بہت سے خاندانی مسائل حل ہو جانے کے قوی امکانات ہیں۔ آپ کی وفات حسرت آیات سے ہماری جہت سی ناتمام حسرتیں پوری ہو جائیں گی مگر صاحب تو یہ کیجئے جب تک بزرگوار کے ہاتھ کسی وصیت کی دھنک نہ آ جائے وہ مرنے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ بزرگ نہ رہیں تو اولاد کے سرسے سایہ اٹھ جاتا ہے اور بھلا بزرگ یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ اولاد سائے کے بغیر زندگی گزارے لہٰذا وہ وصیت کی سایہ دار دھنک کا انتظام کرنے کے بعد ہی عالم فانی سے دنیائے جاودانی کی طرف کوچ کرنے پر کمر بستہ ہوتے ہیں۔ بزرگوں کے انتقال کے بعد ان کی وصیت سائے کی طرح اولاد کے پیچھے لگی رہتی ہے اور اس طرح اولاد کی باقی ماندہ زندگی بزرگوں کو یاد کرتے گزر جاتی ہے۔پاکستان اور بھارت میں وفات پانے والے بزرگوں کی وصیتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں متن کی حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ عام طور پر دل جلے بزرگ جو وصیتیں کرتے ہیں وہ کچھ یوں ہوتی ہیں کہ فلاں حرامزادے کو میرے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینا۔ اگر وہ میرا چہرہ دیکھنا چاہے تو میرا منہ ہی دوسری طرف پھیر دینا۔ نماز جنازہ فلاں فرقے کے عالم سے ہرگز نہ پڑھواناکیونکہ اسے فلاں عالم دین نے خارج از اسلام قرار دے رکھا ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔مگر صاحب ہم مشرقی لوگ ٹھہرے جاہل اور ان پڑھ۔ وصیتوں کا اصل حسن اور نزاکت تو مغرب میں ہے۔ وہ لوگ حقیقت میں وصیت کرنے کا فن جانتے ہیں اور ایسی ایسی وصیت کرتے ہیں کہ پورے کا پورا مشاعرہ لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ ایسا ایسا مضمون باندھتے ہیں کہ انسان اس بات پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا جو غالب نے کہی تھی یعنی کہ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میںچند روز قبل مغربی دنیا سے ایک وصیت منظر عام پر آئی ہے۔ یہ وصیت پڑھ کر بے اختیار جی چاہا کہ ان ہاتھوں کو عقیداً بوسہ دیا جائے جن ہاتھوں نے یہ وصیت لکھی ہے لیکن افسوس کہ یہ وصیت اس وقت سامنے آئی جب کہ وصیت کرنے والے صاحب اس دار فانی سے کوچ کر چکے تھے۔ اب تو آپ اور ہم اس وصیت کی انفرادیت پر اپنا اپنا سر دھن کر داد دے سکتے ہیں۔ ان صاحب نے وصیت یہ کی کہ ان کی موت کے بعد ان کے مردہ جسم کو ابالا جائے اور اس عمل سے جو چربی حاصل ہو اس سے ایک بڑی موم بتی بنائی جائے جسے میری لاڈلی بیوی رات کے وقت مطالعہ کرتے ہوئے روشن کرے جب اس عجیب و غریب و صیت کا سبب پوچھا گیا تو مرنے والے صاحب نے بتایا کہ میری چربی سے بننے والی شمع میری بیوی کو میری محبت یاد دلاتی رہے گی۔ مغربی روایات کے مطابق انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب یہ چربی موم بتی بن کر آئے ان کی بیگم صاحبہ کسی نئے شوہر کے حجلہ¿ عروسی کی زینت بن چکی ہوں اور سہاگ رات میں نیا جوڑا موم بتی کی روشنی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے یہ مصرعہ پڑھ کر مرحوم کو داد دے رہا ہو۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ایک اور مردِ آزاد کی سنئے۔ یہ بھی بستر مرگ پر دراز تھا اور اپنے لالچی خاندان سے بہت دلبرداشتہ ہو چکا تھا کیونکہ وہ اس کی موت کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے چنانچہ اس شخص نے وصیت لکھوائی کہ جب وہ مر جائے تو اس کے جسم کے حصے علیحدہ کرکے اس کے عزیز و اقارب میں تقسیم کر دئیے جائیں۔ مرنے والا شخص جن افراد خاندان کو سب سے زیادہ ناپسند کرتا تھا ان کے بارے میں اس نے وصیت کی کہ انہیں اس کی ناک یا دانت دے دئیے جائیں۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس نے اپنے دیگر اعضا میں سے کون کون سے اعضا کس کس رشتہ دار کو بطور ترکہ منتقل کرنے کی وصیت کی۔ ہو سکتا ہے اس نے یہ کام رشتہ داروں کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا ہو۔ کسی شاعر نے غالباً اس قسم کی کسی وصیت کو جامہ شعر پہناتے ہوئے کہا تھا
احباب میرے جسم کے حصوں کو بانٹ لیں
بکھرا ہوں لوٹ کے سامان کی طرح
ایک انگریز نے اپنی بیوی کے حق میں جو وصیت نامہ لکھوایا تھا وہ ان ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
”اوپر لکھے نام کی حرامزادی بھتنی چڑیل جو انسان کے روپ میں نظر آتی ہے اور ہر وقت میرے کانوں میں جھوٹ انڈیلتی رہتی ہے۔ یہ ایک ایسا درندہ ہے جس کا کوئی نام نہیں۔ اس نے میری زندگی کو جنم بنا دیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میری بیوی جس کا نام اوپر لکھ چکا ہوں کو میرے ترکے میں سے صرف ایک پاﺅنڈ ادا کیا جائے۔“ ہم نے نمونے کے طور پر چند مثالیں پیش کی ہیں وگرنہ اہل مغرب کے ہاں ایسی ایسی وصیتوں کے ریکارڈ موجود ہیں کہ ایسی وصیت کے بعد واقعی مر جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ قریب المرگ شخص وصیت لکھوانے کے بعد کسی ہنگامی صورتحال کی بنا پر رحلت کا ارادہ ترک کر دے اور اس کی وصیت کا راز طشت ازبام ہو جائے تو وصیت کا ہدف بننے والے عزیز و اقارب اسے خود عالمِ بالا کی طرف روانہ کر دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔اور وصیت کسی الماری میں دھری کی دھری رہ جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...