عمران خان اور طاہرالقادری کی آج بھی یہی رٹ ہے کہ وہ نواز شریف سے استعفیٰ لئے بغیر اور موجودہ کرپٹ حکومت کا خاتمہ کئے بغیر ہرگز نہیں جائیں گے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی تحریک کے سر براہ ڈاکٹر طاہرالقادری اسلام آباد میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اس میں عوام کی مشکلات کے مسائل کی بات کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کے تعیشات اور عوام کی مشکلات کا جو نقشہ کھینچا جاتاہے۔ اگر عوام کو معاملات میں سیاسی آمیزش کا یقین نہ ہو تو یہ ہر دل کی آواز ہیں جس کی وسیع پیمانے پر عوامی پذیرائی ہونی چاہئے۔ ہر دو رہنما اگر سیاسی مخالفین کو للکارنے اور الزام نما خیالات کی آتش بازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اگر موجوہ نظام اور حکمرانوں ہی کے بارے بات کو مرکوز رکھیں تو ان سے اختلافات کی گنجائش نہیں اس تناظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو مندرجہ خیالات سے کسی کو اختلاف نہیں ہوگاجس میں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ نظام کی تبدیلی پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن نہیں‘ انقلابی تحریک کی ضرورت ہے۔ ہماری تحریک جمہوریت کے خلاف نہیں‘ فتنے کو رد کرتا ہوں‘ ہم اقلیتوں ‘ مزدوروں‘ کسانوں اور بے کس مظلوم پاکستانی عوام کے حقوق کیلئے نکلے ہیں‘ غریبوں کا حق حکمرانوں سے چھین کر واپس لانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ان اسمبلیوں کے خاتمے کے بعد ایک قومی حکومت قائم کی جائے اور قومی اصلاحات کی جائیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے لیکر اب تک ملک میں پارلیمانی و صدارتی نظام بھی رہے آمریت کے ادوار بھی آئے مختلف ادوار میں بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے مختلف تجربات کئے گئے‘ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرکے عوامی نمائندوں کے ذریعے ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کی مساعی کی کئی مگر بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہ دی خود تحریک انصاف کے زیر اقتدار صوبہ خیبرپختونخواہ میں بھی جس تبدیلی اور اصلاح عمل کی نوید دی گئی تھی۔ بدقسمتی سے اس بارے بھی عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچی جس کے نتیجے میں عوام کی مایوسی میں اضافہ فطری امر ہے۔ان حالات کے تناظر میں نظام کی تبدیلی اور اصلاح احوال میں پارلیمنٹ کی بجائے کسی انقلابی قدم کی ضرورت کا عام آدمی قائل ہے۔ اذبان و قلوب مائل اور فضا ءسازگار ہے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون کے سوال کا اس لئے صحیح جواب نہیں مل پاتا کہ عوام منظر عام پر موجود جملہ سیاسی و دینی جماعتوں اور اکابرین پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ عوام کی نظروں میں یہ سارے عناصر ہی نہیں یہ نظام بھی لا حاصل اور بوسیدہ قرار پا چکا ہے مگر کوئی مسیحا ایسا دکھائی نہیں دیتا جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو جو سٹیج پر تو غریب عوام کی بات کرتا ہو تو سٹیج سے اتر کر وہ کسی محل اور پرتعیش زندگی نہ گزارتے ہوں کم از کم فی الوقت منظر نامے کے تمام کردار خواہ وہ حکومت میں ہوں‘ حزب اختلاف میں ہوں یا دھرنے میں شریک ہوں قدر مشترکہ ان کی شاہانہ طرز زندگی ہے۔ ایسے میں انقلاب اور عوامی مسائل حل کے دعوے عوام کو سیاسی چال نظر آتے ہیں۔ یہ صورتحال نفرت انگیزی و محرومی کے جذبات کو ابھارنے کا باعث بن رہی ہے جس کا عوام کی حالت زار میں تبدیلی لانے کا عزم یا دعویٰ رکھنے والوں کو ادراک ہونا چاہئے۔
ایک طرف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے حکومت سے مذاکراتی عمل ختم کرنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی انتظامیہ کی جانب سے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ سے دونوں جماعتوں میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ تاہم ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت صبر کا دامن نہ چھوڑے۔ ان دھرنوں سے حکومت کی پوزیشن خراب ہو رہی ہے کیونکہ ان میں حکمرانوں پر عوامی مسائل حل نہ کرنے اور کرپشن کے ریکارڈ توڑنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔
دھرنوں سے حکومت کی پوزیشن خراب ہو رہی ہے
Sep 17, 2014