مکران ایک طویل عرصہ تک الگ ریاست رہی۔ قلات کا حصہ نہیں تھی۔ یہاں پر مختلف ادوار میں مختلف خاندانوں نے حکمرانی کی۔ ان میں بلیدی اور گچکی نمایاں تھے۔ گچکی پناہ سنگھ لاہوری کی اولاد تھے۔ اس کے تین بیٹے مار سنگھ‘ بھگت سنگھ اور جڑن سنگھ چالیس سواروں کا جتھا لیکر پنجگور کے ایک گاﺅں گچک میں رہائش پذیر ہوئے اور بعد ازاں گچکی کہلائے۔ رفتہ رفتہ وہ اتنے طاقتور ہوئے بلدیوں کی حکومت کا تختہ الٹ کر خود حکمران بن بیٹھے۔ یہ خان قلات میر نصیرخان اول تھا جو تمام ریاستوں کو ایک وفاق میں لے آیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے جانشین کمزور نکلے اور اکائیوں پر ان کی گرفت کمزور ہو گئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ گوادر‘ جو اس وقت مسقط کے قبضے میں تھا‘ کو فتح کرنے کی دو مرتبہ کوشش کی گئی‘ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ مکران اور مرکزی بلوچستان کے کلچر‘ موسم‘ مزاج‘ زبان اور خوراک میں نمایاں فرق ہے۔ مکران میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے جو فارسی سے ملتی جلتی ہے۔ ماراوان اور جھالاوان میں بروہی رائج ہے جو نہایت مشکل زبان ہے۔ وہاں موسم گرم مرطوب ہے۔ یہاں سردیوں میںسخت سرد اور گرمیوں میں معتدل ہے۔ اخلاقیات میں فرق ہے۔ Homan Metabolism پر جو اثر مچھلی اور کھجور ڈالتے ہیں‘ وہ جو اور ستوﺅں سے مختلف ہوتا ہے۔
تربت میں قیام کئی اعتبار سے تکلیف دہ تھا۔ چھوٹا سا شہر جس میں اکثر گھروندے مٹی کے بنے ہوئے تھے۔ سارے شہر میں دو گائیں تھیں۔ ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس اور دوسری صدر بلدیہ حاجی عبدالسلام کی ملکیت تھی۔ باقی لوگ بکری کا دودھ استعمال کرتے ۔ غریبی کو مجسم شکل میں پہلی بار دیکھا۔ ”یہاں کسی اخبار کی آمد کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ لائبریری کی ضرورت کبھی محسوس نہ کی گئی تھی۔ بجلی شاید تخیل میں چمکتی تھی۔ برف صرف اعصاب پر پڑتی تھی۔ پھل محض صبر کا دستیاب تھا۔ دودھ شادی بیاہ کے موقع پر استعمال کیا جاتا اور ٹھنڈا پانی پینے کی بشارت مولوی صاحب جمعہ کے واعظ میں دیتے تھے۔“ ان کی غربت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ”معیشت دم توڑتی ہوئی ‘ غربت کے ہاتھ جوڑتی ہوئی‘ ہمت سنگ توڑتی ہوئی‘ غیرت نقش چھوڑتی ہوئی‘ کاروان حیات تنگناﺅں اور مہیب گھاٹیوں سے گزرتا ہوا اور صدائے بریں کارواں کانوں میں رس گھولتی ہوئی نہ منزل کا پتہ نہ نشان منزل۔“ اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ سارے مکران میں مشہور ہو گیا کہ حکومت پنجاب سے حاکم مسلط کر رہی ہے اور ٹریننگ کے بعد ہمیں ان کا نمدا کسنے کیلئے یہیں تعینات کر دیا جائے گا۔ ہم جہاں بھی جاتے ہمیں مشکوک نگاہوںسے دیکھا جاتا اور ایک واضح احتجاج ہر نظر سے ٹکپتا۔
ٹریننگ کے بعد مجھے اسسٹنٹ کمشنر مستونگ تعینات کر دیا گیا۔ سارے بلوچستان میں یہ واحد علاقہ ہے جو کسی حد تک سرسبز ہے‘ شاداب ہے۔ کاریزوں (پانی کا نالہ) کا جال بچھا ہوا ہے۔ قلات میں بے شمار قبائل آباد ہیں۔ مینگل‘ زرکر زئی‘ محمدشاہی‘ رئیسانی لہڑی‘ بنگلزئی‘ شیوانی‘ رستم زئی‘ کرد وغیرہ یہاں پر بھی سرداروں نے کمشنر سے باقاعدہ احتجاج کیا۔ دوران سروس مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ سرداروں کے تحفظات اپنی جگہ‘ مقامی افسر بھی لوگوں کو ورغلاتے اور بھڑکاتے رہتے تھے۔ مقام مسرت صرف یہ تھاکہ ایک عام بلوچ فطرتاً نہایت سادہ‘ معصوم اور پاکباز تھا۔ اس کی کل کائنات چند بکریاں‘ پانی کی چھاگل‘ ستوﺅں کی پوٹلی اور ایک عدد بندوق ہے۔ اگر دل میں غبار ہے تو ہاتھ میں ہتھیار ہے۔ یہ نہیں کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔“
نفرت کی اس خلیج کو مزید گہرا کرنے میں بیورو کریسی نے بڑا کردار ادا کیا۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی سطح پر بالعموم سی ایس پی افسر تعینات ہوئے۔ انہوں نے تالیف قلوب تو کیا کرنی تھی‘ بلوچوں کو مزید برانگیخت کیا۔ Customary Law کی جگہ قانون شہادت ضابطہ فوجداری اور تعزیرات پاکستان لے آئے۔ اس نے سردار کے اختیارات پر کاری ضرب لگائی۔ نتیجتاً سرداروں نے لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا۔ اگر کوئی سڑک بن رہی ہے تو انہیں بتایا گیا کہ تمہاری آزادی سلب کرنے اور تمہیں غلام بنانے کیلئے حکومت راہ ہموار کر رہی ہے۔ اگر کوئی سکول کھلتا تو انہیں بتایا جاتا کہ اس میں تمہارے بچوں کو لادینی تعلیم دی جائے گی۔ اس طرح تعمیر کے ہر راستے میں تخریبی خندقیں کھودی گئیں۔
معروضی حالات کو سمجھتے ہوئے یحییٰ خان نے جسٹس فضل اکبر کی صدارت میں ایک کمشن قائم کیا۔ مقصد بلوچوں کو ایک حد تک خودمختاری دینا تھا۔ کمشن نے مستونگ میں بھی ایک نشست رکھی۔ کمشن کی نشست و برخواست کا انتظام میرے ذمہ تھا۔ اسی کمیشن کے سامنے میر غوث بخش بزنجو نے ایک جاندار تقریر کی تھی جس کی صدائے بازگشت بڑی دیر تک بلوچستان میں سنی جاتی رہی۔
اس قسم کے کئی کمشن بنے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہر حکومت نے حسب استعاعت بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن معروضی حالات کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں۔
(دوسری قسط)
تقسیم کے وقت ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ہندو پاکستان میں سے جس ملک سے چاہیں الحاق کر لیں۔ اس طرح شاطر انگریز نے عملاً ایک ابہام چھوڑ دیا۔ بعض ریاستوں میں اکثریت تو مسلمانوں کی تھی‘ لیکن والئی ریاست ہندو تھا۔ کشمیر میں یہی المیہ ہوا۔ راجہ نے لوگوں کی مرضی کا احترام نہ کیا۔ حیدرآباد کا حکمران مسلمان تھا‘ لیکن ہندوستان نے منافقت سے کام لیتے ہوئے اسے ہتھیا لیا۔ رقبہ کے لحاظ سے قلات ایک بہت بڑی ریاست تھی جس کا والی میر احمد یار خان تھا۔ یہاں ایک مختلف صورتحال پیدا ہو گئی۔ 1876ءکے معاہدے کے بعد خان قلات بے اثر ہو گیا تھا۔ یہ معاہدہ سر رابرٹ منڈے مان نے خان اور سرداروں کے درمیان کرایا تھا۔ معاہدے کی رو سے تمام اختیارات سرداروں کو منتقل ہو گئے اور خان برطانوی بادشاہ کی طرح سے ”ربڑ سٹیمپ“ بن کر رہ گیا۔ تمام فیصلوں کا اختیار بلوچ جرگے‘ دارالعلوم اور دارالعمرا کو تفویض کر دیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ 1948ءتک خان لیت و لعل سے کام لیتا رہا۔ بلوچ سردار الحاق کے خلاف تھے۔ پاکستان چاہتا تو ہندوستان کا طرزعمل اپنائے ہوئے ریاست پر قبضہ کر لیتا‘ لیکن قائداعظم ایک جمہوری ذہن رکھتے تھے۔ اس اثنا میں مکران کے بانی خان گچکی کو حکومت پاکستان نے تو اب مکران تسلیم کر لیا۔ اس نے مکران کی ریاست کا الحاق خان قلات سے پوچھے بغیر پاکستان کے ساتھ کر دیا۔ اس کی دیکھا دیکھی جام آف لسبیلہ اور خاران کے میئر نے بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ ریاست قلات کا ایک تہائی حصہ خان کے نام نہاد تسلط سے آزاد ہو گیا۔ ساحلی علاقہ ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ سے وہ ”سینڈوچ“ ہو گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے 1948ءمیں پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اس بات کا سراوان‘ جھالاوان‘ مری کے سرداروں نے برا منایا۔ ان کے خیال میں خان نے 1876ءکے معاہدوں کی خلاف ورزی کی تھی۔
شاید تالیف قلوب کا اہتمام ہو جاتا اگر ملک میں ایک تواتر کے ساتھ مارشل لاءنہ لگتے۔ آمر مخالفت یا اختلاف رائے پسند نہیں کرتے۔ ایک تاثر قائم ہو گیا کہ پنجابی فوج مارشل لاءلگاتی ہے۔ پہلا مارشل لاءایوب خان نے لگایا جس کا تعلق اس وقت کے صوبہ سرحد سے تھا۔ یحییٰ خان افغان تھا۔ ضیاءالحق مشرقی پنجاب کا مہاجر تھا۔ پرویز مشرف بھی مہاجر تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ Kingshi Pknows wo Kinship بادشاہ برادریاں نہیں پالا کرتے۔ ان کا مطمع نظر صرف شاہی کی حفاظت ہوتاہے۔
ضیاءالحق کے دور میں جتنا ظلم پنجابیوں پر ہوا‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ایک سندھی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی خاطر خودسوزیاں کیں‘ کوڑے کھائے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ لیکن جیسا کہ برطانوی وزیراعظم سر رابرٹ پیلی نے کہا تھا ”حقیقت وہ نہیں ہوتی جو ہے بلکہ وہ ہوتی ہے جس کا تصور عوام کرتے ہیں۔“
بلوچستان میں سرداری نظام کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں لکھا ”بلوچستان میںدو قسم کے سردار ہیں۔ ایک تو وہ جنہیں سرداری ورثے میں ملتی ہے اور دوسرے جن کو بطور انعام اس سے نوازا جاتا ہے۔ اول الذکر پشت در پشت قبیلے کے رسم و رواج کے مطابق سردار بنتے ہیں اور موخرالذکر انتظامی مصلحتوں مشین میں گھڑے جاتے ہیں۔ یہ حادثاتی پیداوار ہوتے ہیں اور اکثر کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ سردار داخلی طورپر اپنے قبیلے کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قبیلے کے افراد کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر کافی ہوگا دوران سفر میں نے جنگل میں ایک شخص کو دور سے زمین پر تپڑتے دیکھا اس نے پیٹ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور دودا دودا پکار رہا تھا۔ میں نے سمجھا کہ شاید بروہی زبان میں دودا کہتے ہیں۔ کریدنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے سردار دودا خان کو بلا رہا تھا۔ جب اسے بتایا گیا کہ درد کا مداوا ت ذات باری تعالیٰ کرتی ہے تو وہ کم علم شخص بولا خدا کی نسبت دودا ہمارے زیادہ قریب ہے۔ کہنے کو تو بہت آسان ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوگئے ہیں‘ تمام انسان برابر ہیں۔ زمیں میرو سلطان سے بیزار ہے۔‘ لیکن بلوچستان کی حد تک بلکہ اس ملک میں کافی حد تک معروضی حالات مختلف ہیں۔ آج تک سردار کے اثر و رسوخ کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت جو علیحدگی پسند تنظیمیں کام کر رہی ہی۔ ان کی کمانیں باغی سرداروں کے ہاتھ میں ہے۔ بدقسمتی سے اکثر حکمرانوں کا رویہ ان سے معاندانہ اور مخاصمانہ رہا ہے۔ مینگل‘ مری‘ بگٹی ‘ زرکزئی قبائل کی شکایات اظہر من الشمس بلوچ‘ عزت نفس کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں کسی نہ کسی طور مجروح کیا گیا ہے۔
ان تمام تاریخی‘ جغرافیائی اور معاشی حقیقتوں کے بیان کرنے کے بعد ہم ان دو مسائل کی طرف لوٹتے ہیں جنہیں Basils کہا جا سکتا ہے۔
1۔معاشی ناہمواریاں اور ناصبوریاں‘ 2۔ سیاسی اعتبار سے حق با حق دار رسید! اگر کسی کے ذہن میں یہ بھوت سمایا ہوا ہے کہ چند ماہ چند سال میں سارے ملک میں معاشی مساوات قائم ہو جائے گی تو یہ خیال خام ہے۔ پنجاب‘ سندھ اور سرحد کا کسان ایک ایکڑ میں جتنی فصل اگاتا ہے‘ وہ بلوچستان میں ممکن نہیں۔ پہلے تو زیادہ زمین ہی نہیں پھر زراعت کیلئے پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب اور سندھ کے بارانی اور نہری علاقوں میں بھی معاشی مساوات ہے۔ پنجاب کے بارانی علاقوں میں پینے کیلئے صاف پانی تک نہیں ملتا۔ جوہڑوں پر انسان اور جانور ایک ہی جگہ پانی پی رہے ہوتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے تھل کے متعلق لکھا تھا بچے آدھی گنڈیری چوس کر آدھی ماں کیلئے بچا لاتے ہیں۔ ہمارے علاقوں میں اکثر بچوں کو وہ گنڈیری تک نہیں ملتی۔ اس قسم کی شکایات صرف پاکستان تک محدود نہیں ہیں۔ برطانیہ کا شکار دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے‘ لیکن سکاٹ لینڈ کے باشندے ہمیشہ شاکی رہے ہیں کہ انہی پسماندہ رکھا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماضی کے نہیں بلکہ حال کے بلوچستان کو دیکھنا چاہئے جو معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ گیس‘ کوئلہ‘ سونا‘ تانبہ اور سنگ مر مر کے وسیع ذخائر ہیں۔ اگر ان کی آمدنی کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو ایک معاشی انقلاب آسکتا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً استحصال کا ہے۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ بلوچوں کا استحصال امیر بلوچ کر رہے ہیں۔ میں جب بلوچستان میں تھا تو بہت کوئلے کی کانیں بلوچوں کی ملکیت تھیں۔ نبی بخش زہری‘ کاکا محمد جان ابراہیم بلوچ وغیرہ۔ یہ کان کنوں کو پورا معاوضہ نہیں دیتے تھے۔ ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ مزدروں نے ہڑتال کر دی ۔ اسی اثنا میں یحییٰ خان نے مارشل لاءلگا دیا۔ تصفیہ کیلئے جو کمیٹی بنی میں اس کا ممبر تھا۔ ہم نے کوئٹہ میں عدالت لگائی۔ فریقین کا مو¿قف سنا اور مزدوروں کی تنخواہ دگنی کر دی۔ مالکان بہت تلملائے‘ لیکن بے بس تھے۔ سنگ مر مر (Onyy) کی کانیں بھی زہری برادران کی ملکیت تھیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کسی زمانے میں یہ خود بھی خرکار تھے امیر بننے کے بعد انہوں نے ایاز کی طرح اپنی گودڑی سنبھال کر نہ رکھی۔ اسے اتار زریں لباس زیب تن کر لیا۔ ریکوڈک سے سونا تو نہیں نکلا۔ لوگوں کا مقدر سو رہا ہے۔ اس کی وجہ کرپشن اور نااہلی ہے۔ مقامی حکومت ازخود کچھ کر نہیں سکتی اور مرکزی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔ یہی حال سندھ کے تھرکول کا ہے۔ دنیا کے وسیع ترین ذخائر دریافت ہو چکے ہیں‘ لیکن کوئلہ نکل نہیں سکا۔ ہم صرف اپنا منہ کالا کر رہ ہیں۔ NFA کے تحت ہر اکالی کیلئے مرکز ایک خطیر رقم مختص کرتا ہے۔ یہ عوام تک نہیں پہنچتی۔ سب نمائندگان ہڑپ کر جاتے ہیں۔ نقاوی قرضے‘ زرعی لون اور دیگر فنڈز خواص کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی لوگ جو خوردبرد کرتے ہیں‘ عوام کو بھڑکاتے ہیں کہ مرکز ان کیلئے کچھ نہیں کر رہا‘ میں جب قلات میں اسسٹنٹ کمشنر تھا تو تمام تقاوی قرضے خان قلات کے بیٹے اور سردار صاحبان لے جاتے تھے۔ ایک عام آدمی کے پاس پہلے تو آئین ہی نہیں‘ پھر سردار اسے عدالتوں کے قریب ہی نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔ ایک مرتبہ محمد شاہی قبیلے کا سردار فقیر عمر میرے پاس آیا اور تقاوی قرضہ طلب کیا۔ جب میں نے پوچھا کہ کونسی زمین پر خرچ کرنا ہے تو ڈھٹائی سے بولا ”سائیں!´ چوتھی شادی بنانا ہے۔“ جب تک اجتماعی شعور کو اپنے حقوق کا ادراک نہیں ہو جاتا‘ اس مسئلے کا آسان حل نہیں نکل سکتا۔
جنرل موسیٰ کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ جب وہ گورنر بنا تو اس نے نواب کالاباغ کے دور کے اسیران‘ سرداروں کو رہا کر دیا۔ وہ کوئٹہ آیا تو کمشنر نے سرداروں کو کہا کہ وہ رسماً اسے ملیں اور کرایہ ادا کردیں۔ اس پر سب بیک زبان بولے۔ ہمارے نزدیک شکریے کا مطلب معافی ہے۔ اگر معافی مانگنا ہوتی تو کالاباغ سے مانگ لیتے۔ وہ بھی ہماری طرح سردار تھا۔ کمی کمین سے تو معافی نہیں مانگی جاتی۔ بلوچستان میں سردار عطاءاللہ مینگل ‘ اختر مینگل‘ اسلم رئیسانی‘ اکبر بگٹی برسراقتدار رہے۔ کبھی کوئی غیر بلوچ صوبے پر مسلط نہیں کیا گیا۔ مرکز نے پہلے تو مداخلت کی ہی نہیں۔ بالفرض ایسا کچھ ہوا بھی تو اس کو تسلیم نہ کیا گیا۔ اصل بات وہی ہے جس کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ Trustdeficit بھٹو نے جب وزیراعلیٰ بلوچستان عطاءاللہ مینگل کو شملہ چلنے کیلئے کیا تو اس نے انکار کر دیا۔ بعد میں ٹی وی شو میں وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ بھٹو مجھے پھنسانا چاہتا تھا۔ واپسی پر مشہور کر دیتا کہ رات کے اندھیرے میں مینگل نے ”را“‘ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کئے ہیں۔ پانچ سال نواب رئیسانی وزیراعلیٰ رہا۔ آجکل عبدالمالک بلوچ صوبائی سربراہ ہے۔ مرکزی حکومت چاہتی بھی تو مداخلت نہیں کر سکتی۔
1947ءمیں نفرت اور بداعتمادی کا جو پودا اگایا تھا‘ وہ اب تن آور درخت بن چکا ہے۔ پہلے مسلح مداخلت مقامی تھی۔ اب بین الاقوامی ہے۔ ہندوستان اور کابل کی خفیہ ایجنسیاں علیحدگی پسندوں کو نہ صرف ٹریننگ دیتی ہیں بلکہ آپریشن کیلئے ہلکی خطیر رقم بھی فراہم کرتی ہیں۔ امریکہ بہادر بھی موسیقی کی ہلکی پھلکی دھنیں بکھیرتا رہتا ہے۔ گو حکومت کیلئے یہ لوگ اچھا خاصا درد سر بنے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کی تعداد قلیل ہے۔ یہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معروفی حالات میں حکومت دو قدم نہیں سو قدم آگے بڑھے۔ تالیف قلوب کا اہتمام کرے۔ رائلٹی کو دگنا کر دے۔ بے عملی کا شکار ہوئے بغیر کانوں سے سونا نکالے تاکہ ہزاروں برس سے معاشی زبوں حالی کے شکار عوام سکھ کا سانس لیں اور ایک آسودہ باوقار زندگی گزار سکیں۔