دھرنا کیلئے ایک قافیہ ڈرنا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈراؤ ڈراؤ۔ کوئی نہ ڈرے تو خود ڈر جاؤ۔ اب ڈرنے سے بات آگے نکل چکی ہے۔ آجکل دھرنا کے ساتھ ’’مرنا‘‘ کا قافیہ چل رہا ہے۔ اگر بات نہ بنی تو عمران خان کا کیا بنے گا۔ نواز شریف کا کیا بنے گا۔ قادری صاحب کا کیا بنے گا۔ ہم تو یہ سوچتے سوچتے بوڑھے ہو گئے کہ ملک کا کیا بنے گا۔ ہمارا کیا بنے گا؟
کچھ دوست بیٹھے بات کر رہے تھے کہ حالات خراب ہیں۔ اس سے پہلے خیالات خراب ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ پاکستان مزید ٹوٹ جائے گا۔ مزید تقسیم ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ فیض احمد فیض حسب معمول خاموش بیٹھے تھے۔ کہا گیا کہ آپ بھی کچھ کہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہو گا بس اسی طرح چلتا رہے گا؟
یہ تو ناکام ہونگے مگر جنہوں نے یہ کھیل شروع کیا ہے اُن کا کیا بنے گا؟ جب انٹرنیشنل ایجنسیوں کو ناکامی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے کہ کہیں گڑبڑ ہو گئی ہے تو وہ کچھ کرتی ہیں۔ کچھ کرنے میں وہ بڑی ظالم ہوتی ہیں۔ اس لئے عمران کو احتیاط کرنا چاہئے۔ قادری صاحب کو بھی احتیاط کرنا چاہئے۔ تو بھئی نواز شریف کو کیا کرنا چاہئے؟ انہیں بھی احتیاط کرنا چاہئے۔ احتیاط اپنی اپنی۔ یہ فیصلہ بندے کو خود کرنا ہوتا ہے کہ اُسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ دوسری بات زیادہ ضروری ہے کہ کیا نہیں کرنا تو عمران خان، قادری صاحب اور نواز شریف کیلئے سوچنے کی بات ہے کہ انہوں نے کیا نہیں کرنا۔ تینوں نے جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا۔ اب جو نہیں کرنا وہ کرنا ہے اور یہی وہ کرنا نہیں چاہتے۔ ڈریں اُس وقت سے تینوں بلکہ سارے کہ جب وہ جو کرنا نہیں چاہتے وہ نہ کر سکیں اور کوئی اور کرے جو اصل میں انہیں خود کرنا چاہئے تھا۔ ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے تو ایک دوست مہنگے ترین سگریٹ نکالتا اور پاس کھڑے سب آدمیوں کو ایک ایک سگریٹ دیتا۔ پھر ماچس جیب سے نکالتا اور پھر جیب میں رکھ لیتا۔ کہتا کہ ماچس اپنی اپنی!
میرے ایک دوست ہیں،دردمند آدمی ہیں، باخبر آدمی ہیں، بے خبر آدمی بھی ہیں۔ اُن کے خیال میں عمران خان ایک قیمتی آدمی ہیں مگر وہ اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہیں۔ ٹھیک کہا ہے برادرم ضرار نے کہ اُسے خود کچھ فیصلے کرنا چاہئیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ وہ فیصلے کب اُس کے حق میں ہونگے۔ سیاستدانوں حکمرانوں کو ساتھی مرواتے ہیں اور وہ خود بھی اپنے آپ کو کچھ کم نقصان نہیں پہنچاتے۔
شیخ رشید بار بار کہتے ہیں کہ قربانی سے پہلے قربانی ہو گی۔ مگر اُس نے یہ نہیں بتایا کہ کس کی قربانی ہو گی۔ یہ کیا قربانی ہے اور اندر کی کیا کہانی ہے؟ یار لوگوں کو قربانی چاہئے۔ قربانی جس کی بھی ہو۔ وہ جو یہ تاثر دیتے ہیں کہ نواز شریف کے گھر جانے سے قربانی ہو گی تو قربانی کی کوئی اور شکل بھی ہو سکتی ہے۔ شیخ صاحب اپنا غم و غصہ عمران کے حوالے سے نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ عمران خان کے پیچھے نہیں کھڑے، وہ اُن کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید اندر کھاتے ایک ہیں۔ مگر اُن کی پالیسی الگ الگ ہے۔ شیخ صاحب تو ہمیشہ نمبر دو رہے ہیں۔ نواز شریف ہوں یا عمران خان ہو۔ نمبر دو کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ حکمران بن سکتا ہے۔ حکمران بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ وزیر شذیر بھی حکمران ہی ہوتے ہیں۔ شیخ رشید کو پتہ ہے کہ وہ نمبر ون کبھی نہیں بن سکتا۔
عوامی مسلم لیگ کا سربراہ ہو کر بھی وہ نمبر دو ہے۔ وہ تو عمران خان کی موجودگی میں اس طرح تقریر بھی نہیں کر سکتا جس طرح شیخ رشید تقریر کر سکتا ہے۔ عمران کو بولنا تو آ گیا ہے مگر اتنا ایگریسو ہو کر بولنا شاید آسان ہے؟ اس طرح لڑکے لڑکیاں اور نوجوان بھی ایگریسو ہو گئے ہیں جس کو کچھ نہ سوجھتا ہو وہ بھی جارحیت میں عافیت سمجھتا ہے۔ عمران خان جیسی تقریریں کرنے والے دو چار ہو گئے تو پھر نرمی سے ہم کسی کو سمجھا بھی نہیں سکیں گے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے مگر ابھی تک تو باتیں ہی باتیں ہیں۔ اوئے نواز شریف کہہ کر دھمکی دینا عجیب لگتا ہے۔ اختلاف مجھے بھی بہت نواز شریف سے ہے۔ کچھ باتیں ٹھیک بھی ہیں عمران خان کی مگر اندازِ بیان سے ٹھیک بات بھی ٹھیک نہیں رہتی۔
قائداعظم، چیئرمین ماؤ، ہٹلر، مسولینی، نیلسن منڈیلا کے علاوہ کچھ اور بھی ہونگے۔ عمران، مہاتیر محمد کا بہت نام لیتا ہے مگر کیا کبھی اُس نے بھی عمران خان کی طرح تقریر کی ہے۔ مولا علیؓ نے کہا کہ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے بھی گہرا ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب نے پہلی بار پارٹی کے صدر کی بجائے چیئرمین کا خطاب اپنے لئے استعمال کیا تھا۔ مگر کیا بھٹو بننا بھی عمران کے نصیب میں ہو گا؟ بھٹو نے جو انداز اختیار کیا تھا اس کے کیا اثرات معاشرے میں اور نوجوانوں پر مرتب ہوئے؟ عمران اُس سے آگے جا کے نوجوانوں کے ساتھ کچھ کرنے والا ہے؟
اُس نے نواز شریف کو جتنا ننگا کرنا تھا کر لیا ہے مگر اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس لئے کسی کو کسی سے شرم نہیں آتی۔ پارلیمنٹ میں بھی لوگ اکٹھے ہیں، اپنے مفادات کے حوالے سے ایک ہیں۔ برادرم خالد مسعود خان نے اعتزاز احسن کے حوالے سے خوب لکھا ہے کہ دھاندلی تو بہت ہوئی ہے، کرپشن بھی بہت ہو رہی ہے، بے انصافیاں بھی ہیں، خاندانی حکومت اور موروثی جمہوریت میں فرق مٹ گیا ہے اس لئے ہم حکومت یعنی جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ پارلیمنٹ نہ ٹوٹے کہ محمود اچکزئی اور اس کے خاندان کے سات آٹھ لوگ ممبر اسمبلی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھیوں کے پاس چار وزارتیں ہیں۔ اس لئے کابینہ نہیں ٹوٹنا چاہئے اور وزیراعظم کو بھی استعفیٰ نہیں دینا چاہئے۔
عمران خان اور قادری صاحب بھی دھرنا نہ چھوڑیں تو لوگ کہاں جائیں؟ مجھے برادرم محمد نواز چیمہ نے بتایا کہ دھرنے میں لوگ تو کم رہ گئے ہیں مگر پورا اسلام آباد ایک یرغمالی کی طرح بن چکا ہے۔
ایک بادشاہ نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کوئی نصیحت کرو۔ ماں نے کہا بیٹا بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا وہ تنہا نہیں ہوتا مگر اس کی تنہائی بھی اس کی دوست نہیں ہوتی۔ اسے مشکلوں مصیبتوں بارے معاملوں کا اکیلے ہی مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ نصیحت اقتدار میں رہنے والوں اور اقتدار کی خواہش اور کوشش میں رہنے والوں کیلئے ہے۔
سکیورٹی کیلئے بار بار نشاندہی ہو رہی ہے مگر ساتھی کہتے ہیں آپ کو خطرہ نہیں ہے۔ کنٹینر سڑک پر کھڑا ہے۔ وہاں کوئی بھی آ جا سکتا ہے۔ پٹرول کی بوتلیں پکڑے ہوئے دھرنا ختم نہ کرنے کی دھمکی دینے والے چار نوجوان کون تھے، وہ اب کہاں ہیں؟ شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید کو تو پتہ ہو گا۔ عمران کو یہ یقین دلانے والے کون ہیں کہ خطرہ تو نواز شریف کو ہے۔ زیادہ سے زیادہ قادی صاحب کو ہو گا۔ انہیں بھی نہیں ہے کہ شیخ رشید اُن کے پاس بھی آتا جاتا رہتا ہے۔
یہ بھی کوئی تو بتائے کہ یہ افواہیں اُڑانے والے کون ہیں کہ کوئی ایک تو جائے گا… شیخ رشید کا ہیرو آج کل عمران ہے، کبھی اُس کا ہیرو نواز شریف تھا تواینٹی ہیرو کون ہے؟ آج کل ہیرو اور ولن کا فرق مٹ گیا ہے۔ سلطان راہی کس کا ہیرو تھا، وہ قتل ہو گیا۔ ایک بیان بھی اُس کے چاہنے والوں کی طرف سے نہ آیا۔ مگر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مصطفی قریشی کا کیا حال ہوا۔ وہ اب تک زندہ ہے مگر اس حقیقت سے کوئی واقف ہے؟ یہی تلخ حقیقت ہے۔ مصطفی قریشی کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا۔ ’’نواں آئیاں ایں سوہنیا‘‘ شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید تو پرانے ہیں تو یہ ڈائیلاگ کیا عمران خان کیلئے ہے!
کسی ایک نے تو جانا ہے۔ تین میں سے ایک؟
Sep 17, 2014