”تخلیق“ کا نیا شمارہ متنوع تخلیقات کا مجموعہ ہے

انور سدید
قریباً نصف صدی پہلے معروف ادبی صحافی اور شاعر اظہر جاوید نے لاہور سے ”تخلیق“ جاری کیا تھا تو ان کا بنیادی مقصد تو اردو زبان و ادب کی خدمت ہی تھا اور اس کے لئے انہوں نے اردو ممتاز کے ادیبوں کا تعاون بھی حاصل کیا لیکن نئے لکھنے والوں کی تحریروں کو بنا سنوار کر پیش کرنے اور انہیں اعتماد تخلیق عطا کرنے کی کاوش زیادہ کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین اہل قلم نے ”تخلیق“ کی طرف زیادہ توجہ دی لیکن اظہر جاوید نے ان کا الگ ڈبہ نہیں بنایا اور اب میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تھوڑے سے عرصے کے بعد ”تخلیق“ اردو کے تمام اصناف ادب کا ہی نمائندہ پرچہ بن گیا۔ بلکہ اس پرچے نے سب سے زیادہ خواتین قلم کار متعارف کرائیں۔ فروری 2012ءمیں اظہر جاوید اچانک عارضہ قلب کے باعث وفات پا گئے تو خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اب شاید رسالہ ”تخلیق“جاری نہ رکھا جا سکے لیکن ان کے ہونہار بیٹے سونان اظہر جاوید نے ”تخلیق“ کی باقاعدہ اور بروقت اشاعت سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے والد اظہر جاوید کی خدمتِ ادب کے مشن کو جاری رکھیں گے اور ”تخلیق“ اردو ادب کی دنیا میں اظہر جاوید کے نام کو بھی زندہ رکھے گا۔
اس وقت ہمارے پیش نظر ”تخلیق“ کا ستمبر 2014ءشمارہ ہے جس کا سرورق عالمی شہرت یافتہ مشاعرہ‘ موسیقارہ اور مصورہ پروین شہر نے بنایا ہے۔ پرچے کا آغاز”پہلی بات“ سے ہوتا ہے جس میں مدیر ”تخلیق“ اپنے قارئین سے بے تکلفی سے باتیں کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ انہوں نے ماضی کا یہ واقعہ ریکارڈ کا حصہ بنا دیا ہے کہ ایک ترقی پسند رسالے نے ”نعت“ چھاپنے سے اس لئے انکار کر دیا تھا کہ اسے بھجن بھی چھاپنے پڑیں گے۔ اس واقعے نے اظہر جاوید کے دل میں ”تخلیق“ میں حمد و نعت شامل کرنے کا ولولہ پیدا کیا لیکن ایک بڑے شاعر نے انہیں جو نعت بھیجی وہ اسے ایک ٹی وی مشاعرے میں ”غزل“ کے طور پر پڑھ چکے تھے۔ اظہر جاوید اس پر دل برداشتہ ہو گئے لیکن سونان نے حمد و نعت کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا اور اب اعتراف کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فروغ اسم محمد کا ثمر عمرے کی صورت میں عطا کیا۔ سونان صاحب نے ملال کیا ہے کہ شعرائے کرام زیادہ تر روایتی نعت لکھ رہے ہیں اور بعض اوقات نعت کے فنی تقاضوں میں تقدس کو ملحوظ نہیں رکھتے اس لئے حمد و نعت کا انتخاب کڑا کر دیا گیا ہے۔ ”تخلیق“ کا مشن یہ ہے کہ حمد و نعت کے روحانی تاثر کو فروغ دیا جائے۔
”تخلیق“ کا زیر نظر شمارہ مضامین ،نظم و نثر کا دلآویز مرقع ہے۔ اس مرتبہ ڈاکٹر رشید امجد‘ بشریٰ رحمٰن نثار احمد صدیقی‘ احمد زین الدین‘ ڈاکٹر زین سالک‘ صائمہ زرین بخاری‘ تسنیم کوثر‘ اسلم سحاب ہاشمی‘ جمیل حیات اور اظہر جاوید کے زندگی آمیز اور زندگی آموزافسا نے پیش کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر کیول دھیر کے فکر و فن پر ایک خوبصورت مضمون ابدال بیلانے لکھا ہے۔ اس پرچے میں ایک خاصے کی چیز انٹرویوز ہے جو ماریہ سہیل اور سحر حفیظ نے لئے ہیں۔ انشائیہ کی نمائندگی سلیم آغا قزلباش نے کیا ہے۔ ان کا انشائیہ ”غم“فکر انگیز ہے۔ رشید امجد نے حالات زمانہ پر رواں تبصرہ کیا ہے اور تعلیمی ماحول کے زوال کو نشان زد کیا ہے۔ تاشی ظہیر پر خاکہ لکھ کر اظہر جاوید نے اپنی فنی شخصیت کے ایک اور زاویے کو اجاگر کیا ہے۔ شاعری کے باب میں جناب امین راحت چغتائی‘ ایوب خاور‘ مشکور حسین یاد‘ پروین شہر‘ ممتاز راشد پروین سجل اور ظفر علی راجا کے علاوہ بہت سے شعرا موجود ہیں۔ ڈاکٹر ابدال بیلا کا سفرنامہ ”سورج کے رخ پر“ اور علی سفیان آفاقی کی خود نوشت ”بھارت سے پاکستان تک“ دلچسپی سے پڑھی جائے گی۔ میں یہاں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے مزاح پارے ”ٹیئرولوجی“ کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مطالعے کے دوران مسکراہٹوں کی فصل فطری انداز میں اگاتا ہے۔ ”انجمن خیال“ کے خطوط سابقہ پرچے کے مضامین پر قارئین کے تنقید و تبصرے اور تیکھے تاثرات سے لیس ہیں۔ مجھے اس پرچے کے ہر صفحے پر اظہر جاوید کی مہر لگی ہوئی محسوس ہوئی اور وہ اس محفل ادب میں موجود نظر آئے۔ بلاشبہ سچا ادیب ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ”تخلیق“ کا سالانہ چندہ 750 روپے اور ایک پرچے کی قیمت 100 روپے ہے۔ ملنے کا پتہ دفتر تخلیق ۔ ای 67 ۔ اے ون۔ نزد ڈیفنس چوک۔ پولیس چوکی‘ سپرٹاﺅن‘ لاہور کینٹ‘ فون 04236671007 04236626008

ای پیپر دی نیشن