ملک میں جعلی وکلاء کی بھرمار، لاء کالجز میں بیوٹی پارلر کھلے ہیں: جسٹس دوست

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں وکلا کی جانب سے ضاابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور جعلی ڈگریوں سے متعلق شکایات کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت 14اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے، امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر وکلا کی ڈگریوں کی تصدیق ہو جائے تو غلط لوگ اس شعبہ سے خود بخود ہی باہر ہو جائیں گے ، عدالت کا کام فیصلہ جاری کرنا ہے اور ہم اس کے نتائج پر غور کئے بغیر فیصلہ جاری کریں گے حیرت کی بات ہے کہ وکلاء کی ڈگریوں کی تصدیق کے ایک اچھے مقصد کے لئے حکومت پنجاب کے پاس فنڈز نہیں ہیں؟ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے ہیںکہ انصاف کے نظام میں سب سے بڑے فریق سائلین ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ وکلا اور تقریبا تین لاکھ کے قریب عملہ کی خدمات لیکر انہیں روزگار فراہم کرتے ہیں ، 80فیصد لا کالجز کے مالکان بھی وکیل ہیں، جبکہ میں نے ایسے لا کالجز بھی دیکھے ہیں کہ جن میں بیوٹی پارلرز بھی کھلے ہوئے ہیں ملک میں جعلی وکلاء کی بھر مار ہے بہت کم لوگ پریکٹس لائر ہیں۔ پاکستان بار نمائندہ نے بتایا کہ یہ معاملہ ایک خاتون جج کے ساتھ حیدر زمان نامی ایک وکیل کی جانب سے بدتمیزی کے بعد اٹھا تھا جس پر اس نے عدالت میں اپنے وکیل میاں اسرار کے ساتھ حاضر ہو کر معافی بھی مانگی تھی تاہم آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے عدالت کی ہدایت پر پاکستان بار کونسل کی ایک میٹنگ بلائی گئی تھی جس میں ماسوائے خیبر پی کے بارکونسل کے کسی اور بار کونسل نے شرکت ہی نہیں کی ہے ، انہوںنے مزید بتایا کہ نئے وکلا سے انٹری ٹیسٹ لینے کے حوالہ سے لاہور ہائی کورٹ نے ایک حکم جاری کیا تھا لیکن متعلقہ جج نے 3ماہ تک اس پر دستخط ہی نہیں کئے تھے ، جس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ ہم آپ کی بے بسی کا اندازہ لگا سکتے ہیں ، قلب حسن نے کہا کہ وزیر اعظم کے مشیر اشتر اوصاف نے اس مسئلہ کے حل کے لئے ایک آرڈیننس جاری کروانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وزیر اعظم نے وہ بھی واپس لے لیا تھا، اس معاملہ سے متعلق کچھ ایسے معاملات بھی ہیں جو وہ کھلی عدالت میں بیان نہیں کر سکتے ، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم آپ کی بات چیمبر میں سن لیں گے ، اور اس بات کو بھی دیکھا جائے گا کہ ہائی کورٹ کے جج نے تین ماہ تک حکم پر دستخط کیوں نہیں کئے ہیں، سید قلب حسن نے بتایا کہ یہ کیس چلنے کے دوران سینکڑوں جعلی وکلا نے لائسنس ختم کروائے ہیں۔
جعلی وکلاء

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...