اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے ارکان سینٹ کے استعفے منظور نہیں کئے ہیں اس کی وجوہ کے بارے میں آج جمعرات یا کل جمعہ کو رولنگ جاری کر دوں گا، اس امر کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن کے اٹھائے گئے نقطہ اعتراض کے جواب میں کیا۔ قائدحزب اختلاف نے کہا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ میں بھی درخواست زیر سماعت ہے اہم مسئلہ ہے چیئرمین (آپ) کے پاس بھی انکے استعفے موجود ہیں اور اس پر رولنگ آنی تھی اب اس پر فیصلہ جاری ہو جانا چاہیے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ انہوں نے ان استعفوں پر رولنگ تحریر کرنا شروع کر دی ہے۔ انہوں نے یہ استعفے منظور نہیں کئے اور آج یا کل جمعہ کو اس پر رولنگ جاری کر دوں گا اور اس معاملے کی وجوہات اور قانونی پہلوئوں سے آگاہ کرونگا۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ کراچی میں بھی داعش کا کالا جھنڈا نظر آچکا ہے۔ تمام مشرق وسطیٰ عدم استحکام سے اسی وجہ سے دوچار ہے،ہم نے کیوں اپنا سرریت میں چھپا رکھا ہے، مری میں حقانی نیٹ ورک سے بات چیت میں چین کے نمائندے بھی موجود تھے، 10 سال سے ہندوستان میں ہمارے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں تھی لیکن اب مودی سرکار کی کوئی پالیسی ہے، اگر کوئی حساس نوعیت کی بات ہے تو ان کیمرہ سیشن بھی ہوسکتا ہے،کوئی بریفنگ نہیں دی جارہی،حساس معاملات پر مودی سرکار نے پالیسی بنالی ہے کہ پاکستان پر دباؤ برقرار رکھنا ہے، اقوام متحدہ کا اجلاس25 ستمبر کو ہے کیا اس سے پہلے اس پارلیمان میں ہم اس سے قبل کیوں زیر بحث نہیں لاسکتے۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی گولہ باری کے حوالے سے حکومتی مئوقف کے معاملے پر پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان سینٹ ملک میں کم سرمایہ کاری کا الزام دھرنا پر لگانے پر ایوان بالا سے احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما چودھری تنویر نے احتجاج کے محرک سینیٹر اعظم سواتی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انکو اگر پارٹی قیادت نے شوکاز نوٹس جاری کیا ہے تو اسکا غصہ ایوان پر کیوں نکال رہے ہیں۔ گزشتہ روز ایوان میں وقفہ سوالات کے دوران سرمایہ کاری کمشن سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے جارہے تھے۔ سینیٹر اعظم سواتی اچانک اپنی نشست سے اٹھے اور کہا کہ وزیر سرمایہ کاری نے پاکستان میں سرمایہ کاری کم ہونے کا الزام تحریک انصاف کے دھرنے پر لگایا ہے اور اس بارے میں انکا باضابطہ بیان آیا ہے۔ بدقسمتی سے ہر معاملے میں خصوصی ناکامی کی ذمہ داری دھرنے پر عائد کی جاتی ہے۔ انہوں نے احتجاجاً واک آئوٹ کا اعلان کیا انکے اعلان پر تحریک انصاف کے سینیٹر ایوان سے چلے گئے حکومتی عہدیدار ان کو منا کر لے آئے۔ علاوہ ازیں سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ کاغذ کیلئے خام مال پر کوئی نئی ڈیوٹی عائد نہیں کی جارہی۔ وزارت خزانہ کی طرف سے تحریری جواب میں ایوان کو بتایا گیا کہ کاغذ میں موجودہ ٹیرف ڈیوٹی شرح جو دو فیصدہے وہ سب سے کم ڈیوٹی سلیب ہے۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال خان نے کہا ہے کہ پچھلے پانچ سال کے دوران موبائل فون کارڈ‘ ری چارجز اور اس سے متعلق دیگر ذرائع سے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 174 ارب روپے سے زائد جمع ہوئے۔ مزید برآں سینٹ کو بتایا گیا کہ حکومت نے صنعتی شعبے کی ترقی کیلئے مختلف اقدامات کئے ہیں‘ موٹر سائیکلوں سے متعلق نئی پالسی سے ملک میں سرمایہ کاری کے نئے راستے کھلیں گے‘ وزارت صنعت و پیداوار کی طرف سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ صنعتی سرگرمیوں اور تحقیق کے رجحان کے فروغ کیلئے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ نے تحقیقی پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے مشاہد اللہ خان کے بی بی سی کو انٹرویو سے متعلق تحریک التواء کو خلاف ضابطہ قرار دے دیا۔ علاوہ ازیں سینٹ میں قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف و انسانی حقوق کی رپورٹس ایوان میں پیش کردی گئیں۔ ایل این جی کی مقررہ قیمت پر فروخت سے متعلق تحریک التواء بھی بحث کیلئے منظور کرلی گئی۔ اجلاس میںاپوزیشن سینیٹروں نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیراعظم نوازشریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میںشرکت کیلئے روانگی سے قبل پارلیمنٹ کااِن کیمرہ اجلاس بلاکرقومی سلامتی کی صورتحال پر ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ اوفا اعلامیے سے کشمیرکاذکر نکالنا سب سے بڑی غلطی تھی جس کی وجہ سے بھارت اب دہشت گردی اور ممبئی حملہ کیس کے علاوہ کسی معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ بدھ کو پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو نے سینٹ کے اجلاس میں عوامی اہمیت کا نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں سندھ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے نکات موخر پڑے ہیں لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا جا رہا، ہمارا مطالبہ ہے کہ جلد از جلد اجلاس بلایا جائے۔ سینیٹر مختار احمد عاجز دھامرہ نے کہا کہ گزشتہ دنوں ڈاکٹروں اور نرسوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا جبکہ ان کی ایگزیکٹو کمیٹی سے مذاکرات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 60فیصد ہیلتھ الائونس دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن تاحال اس کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ جس پر چیئرمین رضا ربانی نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کو ہدایت کی اس معاملے بارے معلوم کر کے ایوان میں رپورٹ جمع کرائیں۔ علاوہ ازیں اے این پی کے سینیٹر دائود خان اچکزئی نے کہا کہ کوئی الیکٹرک سپلائی کمپنی گریڈ 17کی 47آسامیوں کیلئے درخواستیں طلب کی گئی ہیں لیکن اس حوالے سے صوبائی کوٹے پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ سینیٹر شیری رحمان نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم کے اقوام متحدہ کے اجلاس میںشرکت کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔ اسپرچیئرمین سینٹ رضاربانی نے کہاکہ وہ ایک دوروزمیںوزیراعظم کے مشیربرائے قومی سلامتی وامورخارجہ سے اس بارے میںبات کریںگے۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد سینٹ کے اجلاس میںسی ڈی اے کیخلاف پھٹ پڑے اور کہاکہ سی ڈی اے ریاست کے اندر ریاست بن چکا ہے، ہزاروں سائلین درخواستیں لئے پھرتے ہیں مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں کہ جن لوگوں کی زمین لی کی گئی انہیں معاوضہ ادا کریں لوگ 20,20 سال سے فائلیں اٹھا کر پھر رہے ہیںجبکہ کوئی ان کی سننے والانہیں، وزیراعظم سے کہا ہے کہ کسی اور وزیر کو سی ڈی اے کا انچارج بنائیں جوان کی زبان میں بات کرتا ہو، قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہاکہ مجھے شیخ آفتاب احمد پر ترس آ رہا ہے دل کرتا ہے انہیں گلے لگاکر کہوں کہ پپو یار تنگ نہ کر۔ رضا ربانی نے مختلف سینیٹروںکی جانب سے عوامی اہمیت کانکتہ اٹھائے جانے پر وزیرمملکت برائے کابینہ سیکرٹریٹ شیخ آفتاب احمدکوہدایت کی سی ڈی اے کے حوالے سے عوامی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں، اس حوالے سے جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں ایوان کواسپر اعتماد میں لیںتو وزیر مملکت پھٹ پڑے۔ وزیر مملکت نے کہا کہ سی ڈی اے کے معاملات دیکھنے کیلئے کوئی خصوصی کمیٹی بنائی جائے جو مکمل طور پر با اختیار ہو یا پھر سی ڈی اے کو کسی ایسے وزیر کے حوالے کریں جو ان کی زبان جانتا ہو۔ چیئرمین سینٹ سی ڈی اے کے معاملات قائمہ کمیٹی کابینہ کو بھجوانے کے احکامات جاری کرتے ہوئے 30 روز میں رپورٹ مانگ لی ہے۔ علاوہ ازیں شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کینٹ اور ایرو ناٹیکل کمپلیکس کامرہ کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، لہٰذا انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ حکومت صرف میگا پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے لیکن اس میں گورننس کے مسائل سے نمٹنے کی کوئی اہلیت نہیں، یہ تاثر عام ہے کہ وزیراعظم اور حکومت صرف وہی بات سنتے ہیں جب سڑکوں اور فلائی اوورز کا ذکر کیا جائے کسی اور معالمے پر وہ کوئی توجہ نہیں دیتے۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ سی ڈی اے ریاست کے اندر ریاست بن چکی ہے۔ اگر پارلیمنٹ سی ڈی اے کے خلاف کسی کارروائی کے حوالے سے بات کرتی ہے تو سی ڈی اے کے ہزاروں ملازمین 24 گھنٹے کے اندر پارلیمنٹ کے باہر جمع ہو جائیں گے جو ویسے کوئی کام نہیں کرتے۔ چیئرمین سینٹ نے پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے پیش کی گئی ایک تحریک التواء مسترد کر دی جس میں سابق وزیر مشاہد اللہ خان کی جانب سے آئیا یس آئی کے سربراہ کے حوالے سے بیان دیا گیا تھا۔ فرحت اللہ بابر نے اس حوالے سے اپنے گزشتہ روز کے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ سینٹ کے رولز آف بزنس کسی وزیر کے بیان کی بنیاد پر تحریک التواء سے نہیں روکتے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے فرحت اللہ بابر کے طویل دلائل سننے کے بعد ان کی تحریک التواء مسترد کرتے ہوئے کہاکہ جب حقائق متنازعہ ہوں تو تحریک منظور نہیں کی جا سکتی۔ سینٹ کو وقفہ سوالات کے دوران حکومت کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ سٹیٹ بینک نے گزشتہ 10سالوں کے دوران ایف آئی اے اور نیب کو 526 مشکوک مالی لین دین کے کیسز کی تفصیلات تحقیقات کیلئے فراہم کیں، ایف آئی اے نے 97 اور نیب نے 46مقدمات میں تحقیقات کیلئے مقدمات درج کئے2015ء کے دوران تارکین وطن کی طرف سے بھجوائی گئی ترسیلات زر18ارب 45 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔ نیشنل پاور کنسٹریکشن کمپنی کی نجکاری سے 2ارب 49کروڑ روپے حاصل ہوں گے ۔ بدھ کو حکومت کی طرف سے ارکان کے سوالوں کے جواب وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر مملکت جام کمال نے دیئے۔وقفہ سوالات کے دوران پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر سردار محمد اعظم موسیٰ خیل نے وزیر خزانہ کی عدم موجودگی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر موصوف سینٹ میں آنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا رباین نے 14 اگست 2015ء کو سابق وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان کی طرف سے بی بی سی کو دئیے گئے انٹرویو کے نکات ایوان میں زیربحث لانے سے متعلق پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی تحریک التواء کو سینٹ قواعد کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی۔ رضا ربانی نے قائد ایوان راجہ ظفر الحق کی اہلیہ کے انتقال کے بعد پہلی بار ان کی ایوان میں آمد پر ان کاخیر مقدم اور اظہار تعزیت کیا۔ بدھ کو راجہ ظفر الحق ایوان میں آئے تو میاں رضا ربانی نے ایوان کی کارروائی روک کر کہا کہ وہ پورے ایوان کی طرف سے راجہ ظفر الحق سے ان کی اہلیہ کی وفات پر اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ سینٹ میں بدھ کو قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی دو رپورٹیں پیش کر دی گئیں جبکہ قائمہ کمیٹی پانی و بجلی اور قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ کی رپورٹیں پیش کرنے کے لئے بالترتیب 30 اور 10 دن کی توسیع دیدی گئی۔ بعدازاں اجلاس کورم پورا نہ ہونے پر آج سہ پہر 3بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
سینٹ