چھ ستمبر کا کھیل ختم، نیا رولا شروع۔ اکتوبر نزدیک ہے

جس وزیر اعظم کے پاس اس قدر اختیارات ہیںکہ وہ ایک سانس میں زرعی شعبے پر 341 ارب روپے نچھاور کر سکتے ہیں، وہ دوسری سانس میںشکائت کرتے ہیں کہ انہیں ہٹا کر کوئی اور حکومت میں آنا چاہتا ہے۔
سینٹ کے چیئر مین رضا ربانی نے کہا ہے کہ جمہوریت کا جہاز ہچکولے کھا رہا ہے۔اور فوج کو اقتدار میں آنے سے روکنے کا نسخہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے تان میں تان ملاتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک پارلیمنٹ ہے، وزیرا عظم کو کوئی عہدے سے نہیںہٹا سکتا۔
آصف زرداری نے کہا ہے کہ طاقتور اداروں کی دوسرے اداروںمیں مداخلت جمہوریت کے لئے خطر ناک ہے۔
میں ملفوف الفاظ میں بات کرنے کا عادی نہیں، ا سلئے واضح لفظوں میں یہ کہناچاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے خلاف سیاستدانوں کے اکٹھ پر دلالت کرتا ہے۔
بہت خوش ہو رہے تھے ہم لوگ کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں، یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ فوج اور سیاستدان سبھی ایک صفحے پر ہیں۔پوری قوم متحد ہے۔
یہ تھی بھی خوشی کی بات۔ مگر قوم کی ا س خوشی کو نظر لگ گئی ۔
یہ تو پتہ نہیںکہ فوج دہشت گردی اور کرپشن کی ڈیوٹی سے تجاوز کر نا چاہتی ہے یا نہیں لیکن یہ صاف نظرا ٓتا ہے کہ سیاستدان اور دیگر ادارے فوج کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ سیاستدان ایک ہی بولی بول رہے ہیں،پہلے الطاف حسین ا ور ان کی جماعت نے لنگر لنگوٹ کسا، پھر زرداری ا ور ان کی جماعت اکھاڑے میں اتری، اب نواز شریف بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو الطاف اور زرداری کہہ رہے تھے۔
اس یدھ میں واضح تو نہیں کہ کیا ہو گا مگرخدشہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف فوج کا آپریشن ڈھیلا پڑجائے گا۔
سیاستدانوں کی نیت کیا ہے ۔ کیا وہ حکومت، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بچانا چاہتے ہیں یا دہشت گردوں اور کرپٹ افراد کو۔
پچھلے سال پشاور سانحہ تک حکومت اور سیاستدان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پر متحد نہ تھے۔کوشش یہ تھی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کئے جائیں اورا س مسئلے کا کوئی حل نکالاجائے ، مگر پشاور میں ڈیڑھ سو معصوم بچوں کے خون پر فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، شاید اس نے حکومت اور سیاستدانوں سے کہا ہو گا کہ آپ ساتھ دیں یا نہ دیں مگر ہم تو آپریشن کر نے چلے ہیں۔ بہر حال پس پردہ کچھ تو ہوا ہو گا، شاید سیاستدانوں کا دل پسیج گیا ہو اور وہ بھی معصوم بچوں کے خون ناحق کو برداشت نہ کر پائے ہوں، عمران خان کے لئے واقعی یہ پہاڑ سر کرنے کے مترادف تھا کہ وہ اپنا دھرنا چھوڑ دیں مگر بظاہر یہی ہوا کہ سب اکٹھے ہو گئے اور فوج نے بھی جان ماری ا ور دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ، اب فوج کا کہناہے کہ وہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں ، اوران کو سرمایہ فراہم کرنے والوں کے خلاف آپریشن کے اگلے مرحلے میں ہے مگر اس میںجو پکڑا جاتا ہے ، وہ کسی سیاسی جماعت کا لیڈر یا کارندہ نکلتا ہے، اس لئے فوج کے خلاف یہ اتحاد ہونا ہی تھا۔ آج نہیںتو کل۔
اچھا یہ ہے کہ اس کے لئے چھ ستمبر گزرنے کاا نتظار کیا گیا، اس سے کم از کم قوم نے کئی برس بعد یوم دفاع ا ور یوم شھدا تو شایا ن شان طریقے سے منا لیا۔
مگر ادھر چھ ستمبر کا دن گزرا، ادھر قومی اتفاق رائے بھاپ بن کر اڑ گیا۔ بلکہ چھ ستمبر کے روز ہی الگ راستے نظر آ رہے تھے، وزیر اعظم نے میجر عز یزبھٹی کی جائے شہادت پرحاضری دی، مگر اسی شام کو وہ جی ایچ کیو میں شھدا کی یاد میں تقریب میںموجود نہیں تھے ا ور اگلے روز انہوں نے چینیوں کے ساتھ عطا آباد کی ٹنل کا افتتاح کیا ور اس سے اگلے روز آرمی چیف نے چینیوں کے ساتھ فوجی مشق کا جائزہ لیا اور اسی روز زرداری نے پھر سے زبان کھولی، یہ چند ہفتوں سے بند تھی۔زرداری کے الفاظ ابھی ہوا میں تھے کہ وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اپوزیشن لیڈر بھی وزیر اعظم کے دفاع میں کود پڑے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی جہوری ملک ہے، یہاں جمہوریت ضروری ہے تو اسلام بھی ضروری ہے اور اسلام سے مراد ایک منصفانہ نظام ہے۔جس میں عدالتیں مقدمات کے فیصلے تیسری چوتھی نسلوں تک نہ لٹکائیں بلکہ مجرموں کو فوری سماعت کے بعد پھانسی پر لٹکائیں۔ جس میں ایک طبقہ ، دوسرے طبقے کا خون نہ نچوڑے،کوئی قومی خزانے کی لوٹ مار نہ کرے، کوئی قومی وسائل پر ڈاکہ نہ مارے۔یہ ہے ااسلامی جمہوری نظام جس کے لئے پاکستان بنایا گیا اور لاکھوںمہاجرین نے قربانیاں دیں۔ اسے عام الفاظ میں نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے۔میرے مرشد مجید نظامی اسی نظریئے کے علم بردار تھے، وہ انصاف کے خواہاں تھے، اور جمہوریت کے استحکام کے لئے آخر دم تک کوشاں رہے۔
یہ نظریہ۔۔ پاکستان کی تشکیل کا باعث تھا تو۔۔ یہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔
درمیان میں دہشت گردوںنے کہا کہ وہ نہ جمہوریت کو مانتے ہین ، نہ ا ٓئین کو ، نہ عدلیہ کو اور نہ پارلیمنٹ کو ، انہوں نے پچھلے بارہ برسوںمیں ایک لاکھ بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا ، ملک کو اربوں کے خسارے سے دوچار کیا۔
اور انہیں بھی مت بھولیئے جنہوں نے پاکستان کو ہر جارحیت سے بچانے کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ ان شہادتوں کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ کوئی ایک طبقہ ،جمہوریت کے نام پر اس ملک میں لوٹ مار ، بھتہ خوری، اور ڈکیتی کے لئے آزاد ہے، اسے عوام کا خون چوسنے کے لئے مادر پدر آزادی حاصل ہے۔
سیاستدانوں کو ہر حق حاصل ہے کہ وہ جمہوری نظام کادفاع کریں ، ا سکی بالا دستی قائم رکھیں مگر اس پردے میں وہ دہشت گردوںکو تحفظ دینے کی کوشش نہ کریں ، نہ ڈاکہ زنوں، بھتہ خوروں کی گردن بچائیں۔
فوجی حکومت کسی کو نہیں چاہئے، نہ شاید فوج سیاستدانوں کو ہٹا کر اپنی حکومت بنانا چاہتی ہے ۔ وہ تو ٹارگٹ کلرز، کرپٹ اور لوٹ مار میں مصروف عناصر کی بیخ کنی کرنے میںمصروف ہے اورا س کی کوششوںکے نتائج صاف نظرا ٓ رہے ہیں، کراچی کی روشنیاںبحال ہو گئی ہیں۔ بلوچستان کی علیحدگی کے خدشات مٹ گئے ہیں اور شہیدوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کو انکے انجام سے دو چار کر دیا گیا ہے، ملک میں امن وسکون ہر ایک کو نظرا ٓ رہا ہے، اب کسی کویہ دھڑکا نہیں کہ اس کا بچہ اسکول سے زندہ واپس لوٹ آئے گا یا نہیں۔کوئی دکاندار اس خدشے میںمبتلا نہیں کہ ا سے بازار میں بھک سے ا ڑا دیا جائے گا۔ نمازی اب اس خطرے میںمبتلا نہیں کہ اسے سجدے یا رکوع میں کوئی خود کش بمبار شہید کر دے گا۔
یہ امن اگر بحال ہوا ہے تو لوگ امن کا یہ تحفہ دینے والے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ جنرل راحیل شریف کا احترام کرتے ہیں ، ا سکا یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ فوج اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔
مگر فوج کے خلاف جو اتحاد بن رہا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ دہشت گردوں اور کرپٹ عناصر کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، حکمران ا ور اپوزیشن لیڈرز اگر بھتہ خور نہیں، کرپٹ نہیں ، ٹارگٹ کلرز نہیں ، تو انہیں ڈر کاہے کا، یہ خوہ مخواہ جمہوریت کا رولا کیوں ڈال دیا گیا ہے۔
کیا جمہوریت میںکرپشن، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری کو کھلا لائسنس مل جاتا ہے۔
فوجی حکومت کا راستہ ضرور روکیئے مگراستحصال، دہشت گردی، کرپشن اور بھتے خوری کا جو قلع قمع کیا جا رہا ہے، اس عمل میں روڑے نہ اٹکایا جائے۔
وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنے تحفظا ت پر نظر ثانی فرمائیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن