قارئین کرام ، اِس برس سوشل میڈیا پر قائداعظم کے یوم وفات 11 ستمبر پر پاکستان کی سلامتی اور دفاعی امور کے حوالے سے قائداعظم کے ویژن پر کافی گفت و شنید ہوئی ہے۔ بالخصوص قائداعظم کی سیاسی جدوجہد کے حوالے سے معروف مذہبی سکالر مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کی وڈیو گفتگو سوشل میڈیا پر متحرک رہی ہے ۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی گفتگو کے تین پہلو انتہائی اہم تھے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ قائداعظم کاویژن برصّغیر ہندوستان میں مسلمانوں کو مکمل تباہی سے بچانے کے حوالے سے تھا جبکہ بیشتر مذہبی سکالرز اُن کی تحریک سے علیحدہ ہی رہے۔
دوسرے یہ کہ اتنی بڑی کامیابی کے حصول کے بعد وفات سے قبل اُن کا یہ کہنا کہ وہ تن تنہا پاکستان نہیں بنا سکتے تھے یہ سب کچھ رسول اکرم کے روحانی فیض کے سبب ہی ممکن ہوا تھا اور تیسرے یہ کہ قیام پاکستان 27 رمضان المبارک کی مبارک ساعت کے موقع پر ممکن ہوا۔ قائداعظم کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کے الفاظ اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ قائداعظم کو نہ صرف چند ایک جید علماءبالخصوص مولانا شبیر احمد عثمانی کی حمایت حاصل رہی بلکہ قائداعظم جب لندن میں قیام کے کئی برس بعد ہندوستان واپس آئے اور 1936 میںمسلم لیگ کو پھر سے منظم کر کے تحریک پاکستان کا آغاز کیا تو خلافت موومنٹ کے شہرت یافتہ مولانا محمد علی جوہر مرحوم کے بھائی مولانا شوکت علی نے مسلم مجلس عمل کو قائداعظم کےساتھ اتحاد سے منسلک کر دیا تھا اور کانگریس حمایت یافتہ علماءکرام کی سرزنش کے باوجود اُنہوں نے قائداعظم کی حمایت سے دستبردار ہونے سے انکارکر دیا تھا۔
چنانچہ مولانا شوکت علی کی 1937 میں وفات قائداعظم کےلئے کافی پریشانی کا سبب بنی البتہ اِس سیاسی خلاءکو بعد میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے کافی حد تک پُر کر دیا جبکہ اِس سے قبل 1940 لاہور میں بیگم مولانا محمد علی جوہر وہ واحد مسلم خاتون تھیں جنہوں نے ڈائس پر آ کر قرارداد پاکستان کی تائید کی جو مسلم خواتین کی پاکستان کیلئے کی جانے والی جدوجہد میں اہم سیاسی علامت ہے
قائداعظم محمد علی جناح کی بے لوث سیاسی جدوجہد کے سبب بالآخر برطانوی وائسرائے ہند جسے برطانوی حکومت نے جون 1948 تک ہندوستان کی آزادی کے مشن کےساتھ بھیجا گیا تھا ،نے ایک برس قبل ہی ہندوستان کو 3 جون کے تقسیم ہند کے پلان کے تحت جسے کانگریس ، مسلم لیگ اور سکھوں کے نمائندوں نے تسلیم کیا تھا کے موقع پر کہا کہ 3 جون کے تقسیم ہند کے پلان کے تحت دونوں مملکتوں میں پُرامن طور پر اقتدار منتقل کیا جائیگا ، نہ کوئی خون ریزی ہوگی اور نہ کوئی فساد۔
قائداعظم نے تقسیم ہند کا پلان اِسی یقین دہانی پر تسلیم کیا کہ اقتدار انتقال پُرامن ہوگا اور آزاد ہونے والی دونوں مملکتیں اقلیتوں کو مساوی حقوق دیں گی ۔ قائداعظم نے اِس کا اعادہ اپنی 11 اگست اور 14 اگست کی تقاریر میں بخوبی کیا لیکن انتہا پسند بھارتی لیڈر 3 جون کے تقسیم ہند کے پلان پر عملدرآمد کرنے کے بجائے آزادی کے فوراً بعد ہی پاکستان کو زمیں بوس کرکے اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے لگے ۔ بالخصوص مشرقی پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرکے خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کی گئی اور لاکھوں لُٹے پٹے مسلمانوں کو پاکستان میں دھکیل دیا گیا ۔کشمیر میں بھارت نے فوج کشی کی اور جوابی طور پر کشمیریوں کا قتل عام روکنے کےلئے اُس وقت پاکستان فوج کے انگریز چیف جنرل گریسی نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے اشارے پر قائداعظم کی حکم عدولی کرتے ہوئے کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کیا ۔
دراصل ماﺅنٹ بیٹن ، بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے مل کر بھارت کی سرحدوں کو سنکیانگ تک چین کی سرحدوں تک پہنچانے کا عزم رکھتے تھے ۔بہرحال جنرل گریسی جو تقسیم ہند کے پروگرام کےمطابق اُس وقت پاکستان کے آرمی چیف کے طور پر کام کر رہے تھے کی حکم عدولی کے سبب فاٹا ، ریاست سوات اور کشمیر سے منسلک کوہستان کے مسلح قبائل نے کشمیریوں کے قتل عام کو روکنے کےلئے مداخلت کی چنانچہ نہ صرف یہ کہ آزاد کشمیر کی حکومت کا قیام عمل میں آیا بلکہ گلگت بلتستان میں مسلم فوجیوں نے بغاوت کرکے نادرن علاقہ جات کو مہاراجہ کشمیر کے تسلط سے آزاد کرایا اور اِس طرح نہرو اور ماﺅنٹ بیٹن کے سنکیانگ تک پہنچنے کے خواب ریزہ ریزہ ہوئے ۔
گو کہ قائداعظم نے پنجاب میں ہونے والے جوابی فسادات کو روکنے اور مشرقی پنجاب کے لُٹے پٹے لوگوں کی آبادکاری کےلئے ایک ماہ تک لاہور میں قیام کیا لیکن وہ جواہر لال نہرو اور کانگریس کی جانب سے تقسیم ہند کے پلان کی خلاف ورزی اور پنجاب ، بہار، بنگال ، دہلی اور جموں و کشمیر میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام پر سخت نالاں اور دکھی تھے ۔یہی وجہ تھی کہ قائداعظم نے جب مارچ 1948 میں مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تو اُنہوں نے بھارت کی سرزمین پر قدم رکھنے سے بھی انکار کر دیا اور اُن کے ڈکوٹہ جہاز نے ایکسٹرا فیول ٹینک کےساتھ ڈھاکہ تک پرواز کی ۔
حقیقت یہی ہے کہ قائداعظم بھارت کے کشمیر میں سامراجی عزائم ، مشرقی پنجاب اور دیگر علاقوں سے لاکھوں مہاجرین کو پاکستان میں دھکیلنے کی ظالمانہ روش کو پاکستان کی سلامتی اور معیشت کےلئے بڑا خطرہ سمجھتے تھے ۔اُنہوں نے پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہمارے دشمنوں نے پاکستان کو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ کر ختم کر دینے کی کوشش کی اور اِن تمام کوششوں میں ناکام و مایوس ہو کر اُنہوں نے سمجھا کہ وہ معاشی سازشوں سے اپنا مقصد حاصل کر لیں گے اور یوں دشمن کی تلوار سے بھڑکائی ہوئی آگ جو مقصد حاصل نہ کر سکی وہ معاشی تباہی سے حاصل ہوجائیگا لیکن اللہ کے فضل سے ہمارا پہلا بجٹ ہی فاضل بجٹ ہے ۔
اِسی حوالے سے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہونے والی سازشوں کے پیش نظر ایک ایسے ہی موقع پر قائداعظم نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کی حفاظت کےلئے تنہا لڑینگے ، اُس وقت تک لڑینگے جب تک اُن کے ہاتھوں میں سکت اور جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے ۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کبھی کوئی ایسا وقت آ جائے جب پاکستان کی حفاظت کےلئے جنگ لڑنی پڑے تو پہاڑوں میں ، جنگلوں میں ، میدانوں میں اور دریاﺅں میں جنگ جاری رکھیں۔ چنانچہ ایک ایسے ہی موقع پر پاکستان فوج ستمبر 1965 میں پاکستان کی سلامتی کی جنگ کے حوالے سے قائداعظم کی اِسی فکر کی ترجمانی کر رہی ہے۔ گو کہ دسمبر 1971 میں بھارتی سازشوں اور ہماری کوتاہیوں کے سبب مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر دیا گیا ہے لیکن بنگلہ دیش آج بھی ایک آزاد مملکت ہے ۔بہرحال بھارتی جارحانہ عزائم کے خلاف تاریخ سے ہماری قوم نے سبق ضرور سیکھا ہے اور پاکستان ایٹمی ملک ہے ۔
یہ اَمر بھی خوش آئند ہے کہ نظریہ¿ پاکستان کی تکمیل، ارض پاکستان کی سلامتی اور مملکت خداداد کو دہشت گردی اور اندرونی و بیرونی جارحیت سے بچانے کےلئے افواج پاکستان متحرک ہیں ۔ بیرونی گماشتوں اور اُن کے سہولت کاروں کی سرکوبی کےلئے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے جو نہ صرف بانی پاکستان کی فکر کے عین مطابق ہے بلکہ پاکستانی عوام کےلئے تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے ۔
اِسی فکر نے ہمارے نوجوانوں میں مایوسی کی جگہ فکر کا نیا جذبہ، نئی اُمنگ اور جنون کی کیفیت پیدا کی ہے جو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے بیرونی گماشتوںاور دشمنوں کےلئے نئی نسل کی جانب سے ملک کی خاطر قربانیاں دینے کا پیغام ہے ۔