بوتل، بریانی اور بھوکے بادل

یورپ پلٹ رائٹر نے پاکستانی جمہوریت کے حوالے سے مزاحیہ مگر پر مغز گفتگو کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا۔” کسی دور دراز علاقے میں ایک شخص مفلوک الحال تھا۔ یہاں تک کہ کھانا کھانے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ عجیب منطق سوجھی اور اپنے جیسے ایک سومفلوک الحال لوگ اکٹھے کرلئے اور جمہوری منطق سامنے رکھی کہ کیوں نہ ایک انجمن یعنی پارٹی بنالیں جس کا مقصد بریڈ (روٹی) کمانا ہویعنی ذریعہ معاش مستقل شکل میں میسر آ جائے۔ چونکہ 100 لوگ اقتدار تو حاصل کرنے سے قاصر تھے لہذا ایک بھیس بدل پارٹی بنانے پر اتفاق ہوا اور طے یہ پایا کہ بانی رکن ایک مذہبی پیر یعنی عامل کا روپ دھارے گا اور باقی چیلے ہونگے بھوک حد سے زیادہ تھی اس لئے بخوبی اور جلد رائے سے اتفاق کر لیا گیا۔پلاننگ کے مطابق ایک گاو¿ں کے قریب پڑاو¿ ڈالا۔ ایک جھونپڑی بنائی اور ایک جھنڈا بھی گاڑ دیا گیا۔ شروع میں لوگ دال روٹی دے جاتے جو سو لوگوں کیلئے ناکافی ہوتی مگر چند ہی دنوں بعد چیلوں کی پھیلائی شہرت کے باعث گاو¿ں کے کچھ لوگ قائد باباجی کے پاس آئے اور بارش کیلئے دعا کرنے کی درخواست کی۔قائد بابا جی نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کرنے کی مشق کردی۔ ساتھ ہی 24 گھنٹوں میں بارش کی نوید سنا دی۔ لوگ گھروں کو لوٹے تو چیلوں نے رات کے وقت گاو¿ں کے قریب سے بہتی نہر سے بالٹیوں اور دیگر مشکیزوںکی مدد سے رات بھر پانی بھر کر گلیوں میں پھینکنا شروع کر دیا۔ گلیوں میں چھڑکاو¿ سے زیادہ کیچڑ جیسی صورتِ حال پیدا کر دی۔ اسی طرح کچھ چھڑکاو¿ گھروں کی دیواروں پر بھی کر دیا۔ چیلے یہ کام رات بھر کرتے رہے چونکہ گاو¿ں چھوٹا تھا اس لئے کامیاب رہے۔ صبح کے وقت گلیوں میں کیچڑ دیکھ کر پورے گاو¿ں میں شور مچ گیا کہ رات بارش ہوئی تھی۔ گاو¿ں کے لوگ ننگے پاو¿ں، بھیگی آنکھوں، جڑے ہاتھوں کے ساتھ قائد باباجی کی خدمت میں پیش ہوئے اور انکے دست مبارک پربیعت کر لی۔ بابا جی اکیلے جا گ رہے تھے اور چیلے رات بھر کی مشقت کے باعث سوئے تھے مگر گفتگو کی آہٹ سے آہستہ آہستہ جاگنا شروع ہوگئے۔ ایک شخص نے تھوڑا سا گلہ کیا کہ بارش کم ہوئی ہے تو بابا جی نے کہا کہ بادل تھوڑے کم تھے۔ بات بڑی تیزی سے پھیلی اور ایک قریبی گاو¿ں کے کچھ لوگ بھی بابا جی کی خدمت میں اسی دن حاضر ہوگئے اور بارش کی کرامت انکے گاو¿ں میں بھی کرنے کی درخواست کر دی۔ بابا جی نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ خیال آیا کہ بادل (چیلے) تو تھکے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک چیلے کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو اس چیلے نے بابا جی کے کان میں سرگوشی کے انداز میں کہا کہ بھوکے بادل تھکتے نہیں۔ آپ دعا کریں ہم وہاں بھی پہنچ جائیں گے۔
اب آپ غور کریں کہ وطن عزیز کی جمہوریت کی حالت بھی ایسی ہے۔ اگر بات واضح طور پر سمجھ نہیں آئی تو تھوڑا صبر کریں۔ جمہوریت کی طرح پورا موقع تو دیں جہاں پانچ سال انتظار کرتے ہیں وہاں پانچ منٹ مزید انتظار کرلیں۔ شفقت رسول صاحب نے جن کے سنائے ہوئے واقعہ پر بحث ہوئی اور یہ تحریر لکھی جا رہی ہے ‘وہ دس سال سے زیادہ عرصے سے یورپ میں بیٹھ کر چیلوں کے بغیر صحافت کر رہے ہیں اور یوں کسی بابے کم نہیں۔
دنیا میں جمہوریت اتنی ترقی کر گئی ہے کہ ہر حکومت اگلے الیکشن سے پہلے اپنی کارکردگی اشتہاروں کی بجائے عوام کی عملی زندگی میں دکھاتی ہے۔ جدید ترین تعلیم، صحت کی سہولت اور روزگار جیسی ضروتیں فراہم کرتی ہے اور اسی کے بل بوتے پر اگلے الیکشن میں بغیر کسی باباکی کرامت عوام کے سامنے جیت کی امید کے ساتھ میدان میں اترتی ہے۔ مگر اس بحث میں موجود (حکیم) لقمان شیخ نامی شخص کے استاد نے مستقبل میں ہونیوالی چھڑکاﺅ نما جمہوری بارش کی پیش گوئی کردی۔ استاد کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ بھی صرف گلیوں کا چھڑکاو¿ نما کیچڑ سے متاثر ہو جائیں گے اور یہ نہیں سوچیں گے کہ بارش کی ضرورت کھیتوں کو ہوتی ہے گاو¿ں کو نہیں۔
پانچ سالہ آلودگی زدہ کارکردگی کو چھپانے یا ڈھانپنے کیلئے سو چیلے اپنی طرح کے مزید بھوکے بیروزگار ناخواندہ چیلے ڈھونڈ لیں گے اور الیکشن قریب آتے ہی ایک پیکیج اشتہار کے بغیر متعارف بلکہ نافذ کردیں گے اور یہ پیکیج ہوگا ”ٹھنڈی بوتل اور بریانی“ کا اور یوں یہ چیلے (بھوکے بادل) چند ہفتوں سے مہینوں پر محیط دورانیے کے اس پیکیج میں ایک ضمنی الیکشن کی طرز پر عارضی طور پر لطف اندوز ہوتے ہوئے پانچ سال کیلئے اپنا ووٹ بیچ آئیں گے۔ آپ اسے بیچنے کی بجائے کرائے پر دینا یا لیز کر دینا کہہ سکتے ہیں۔ اب دھڑکا یہی ہے کہ استاد کی پیش گوئی شاید صحیح ثابت ہوگی۔ کیونکہ پاکستان کی جمہوریت جسے عالمی اداروں میں دوغلی جمہوریت قرار دیا ہے۔ ایک نئی جدت دینے والی ہے اور یہ جدت اجتماعی اور عوامی کارکردگی کی بجائے بوتل، بریانی اور برفیلی گاڑیوں (ایئرکنڈیشنڈ) کی مدد سے جیت یا خرید لیا جائے گا۔ شفقت رسول صاحب! انسان بھوک کے ہاتھوں اتنا مجبور ہوتا ہے کہ پانچ منٹ کی بھوک برداشت نہ کرتے ہوئے حرام چیز کھا کر ایمان بیچ دیتا ہے۔ یہ تو پھر ایک ووٹ ہے۔ وہ بھی پانچ سال کیلئے بعوض حلال بریانی اور ٹھنڈی بوتل، کیونکہ بھوکے بادل کبھی نہیں تھکتے۔

ای پیپر دی نیشن