مظفر وارثی اپنی کتاب ”گئے دنوں کا سراغ“ میں مزید لکھتے ہیں لاہور میں روزانہ کسی نہ کسی علاقے میں عوامی تحریک کا جلسہ ہونے لگا۔ ہر روز شام ڈھلتے گاڑی ہمیں لینے آجاتی۔ طاہر القادری صاحب کے گھرسے پجیرو میں ہم ان کےساتھ جاتے، قائد انقلاب کی تقریر سے پہلے ہماری نظم ہوتی، ہم آگ لگاتے وہ تیل چھڑک دیتے۔ ہمیں بھی بڑی سرکار سے شاعر انقلاب کا خطاب مل چکا تھا۔ جلسے سے واپسی پر حضرت صاحب پجیرو کے حاضرین سے خصوصی داد وصول کیا کرتے، غلطی سے کوئی ہماری تعریف بھی کر دیتا تو بات کا رخ بدل دیتے، دراصل قیادت میں شرک کے قائل نہ تھے۔ لاہور سے باہر بھی جلسے ترتیب دئیے جانے لگے ایک روٹ مقرر کر لیا جاتا۔ ہفتہ ہفتہ بعد واپسی ہوتی۔ حضرت جہاں جاتے گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم کمرے میں قیام فرماتے اور ہم جو مشاعروں میں بڑوں بڑوں سے نخرے اٹھواتے حضرت صاحب کے پہرے داروں کےساتھ سوتے۔طاہر القادری صاحب کے بار بار اصرار پر استعفے کے اعلان کے بعد ہم نے چھٹی لے لی تھی اور پری میچور ریٹائرمنٹ کیلئے درخواست دے دی تھی۔ ہم ڈپٹی ٹریژرر تھے اور ابھی ملازمت میں پانچ سال باقی تھے۔ پراویڈنٹ فنڈ کے پیسے ملے تو حضرت صاحب نے اسلام آباد کے ایک چیلے مقبول بلوچ کے کاروبار میں لگوا دئیے اور وہ ماہانہ منافع ہمیں دینے لگے۔ ادارے سے نہ پہلے کوئی پیسہ ہمیں دیا گیا نہ بعد میں۔
ہم ایک سپاہی کیطرح انکے لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ ہمیں کسی عہدے یا اہمیت کا قطعاً لالچ نہ تھا۔ از خود ہمیں ایگزیکٹو کا ممبر بنا لیا گیا تھا۔ جسکا خود ہمیں بہت بعد میں علم ہوا۔ انکی آمریت کا خوبصورت شاہکار میٹنگوں میں دیکھنے کو ملا۔ دکھاوے کی رائے سب سے لیتے، کرتے اپنی۔ جب کوئی اپنی بات پر درست اصرار کرتا تو فرماتے آپ تو بادشاہ آدمی ہیں اور یوں اسکی گویائی ضبط کر لی جاتی۔
شدید گرمی میں تپتی ہوئی سڑکوں پر لوگ گھنٹوں اپنے ”قائد“ کا انتظار کرتے اسطرح کے انتظامات پیشگی کر دئیے جاتے تھے۔ قافلے کا گزر ہوتا تو قائد انقلاب پجیرو کی چھت کے سوراخ سے دیدار کراتے، معلوم نہیں بے نظیر نے یہ ادا ان سے سیکھی تھی یا انہوں نے بے نظیر سے۔ انگلیوں پر تسبیح لپٹی ہوتی، آگے پیچھے ہم نے یہ ہتھیار کبھی ان کے ہاتھ میں نہیں دیکھا تھا۔ مصطفوی انقلاب کے داعی کے خورو نوش کی چیزیں تک خدام لے کر چلتے پجیرو کا پچھلا حصہ انہی ضروریات کےلئے وقف ہوتا۔ پھلوں کا جوس، یخنی، چائے، کھانا، غرض ہر طرح کے بیمار کی خوراک دستیاب ہوتی۔ بھولے بھٹکے ہم سے بھی نہ پوچھنے کیطرح پوچھ لیا جاتا لیکن محض لفظ ”شکریہ“ سننے کیلئے، دوسری بار کہنا انکے مذہب میں نہ تھا۔ قہر درویش بر جان درویش، ہم بیچارے پانی سے پیٹ بھرتے یا چنوں سے، پانی بھی پیاس بھر نہ ملتا جبکہ ہم شوگر، ہارٹ اٹیک، ریڑھ کی ہڈی کے درد اور السر کے پرانے مریض ہیں....
فرمانے لگے وارثی صاحب بے نظیر تو ہے ہی بے دین، منافق نواز شریف ہے اور منافق زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ پہلے یوم تاسیس پر مینار پاکستان پر جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ سٹیج کے دائیں جانب تین بڑی بڑی تصویریں لگائی گئیں۔ ایک تصویر علامہ اقبال صاحب کی تھی، ایک قائد اعظم اور تیسری حضرت کی، اقبال کی تصویر کے نیچے لکھا تھا ”خواب“ قائد کی تصویر کے نیچے ”تعبیر“ اور علامہ کی تصویر کے نیچے لکھا تھا ”تکمیل“ ذرا خوش فہمی ملاحظہ ہو خواب اور تعبیر سے، تکمل بہت بڑا لفظ ہے۔ بہت بڑا بننے کتنا شوق ہے حضرت صاحب کو۔ اللہ کرے زور زقند اور زیادہ۔ انکی شخصیت کی کتنی پرتیں ہیں ”پاکستان عوامی تحریک“ کا نام تجویز کرنے کیلئے روضہ رسول پر رچایا گیا، یہ سارا ڈرامہ ساتھیوں کو مرعوب کرنے کیلئے تھا‘ ورنہ نام پہلے رکھ لیا گیا تھا اور اس التزام کےساتھ کہ کوئی سابقہ لاحقہ مذہبی قسم کا نہ ہو‘ موچی دروازے کے جلسے کیلئے تاکید کی گئی تھی، اگلی صف میں میرے سوا کوئی داڑھی والا نہ بیٹھنے پائے۔ وہ ایک اجلاس میں کہہ چکے تھے کہ عوامی تحریک کو داڑھی والے نہیں چاہئیں‘ ایسے لوگوں کیلئے منہاج القرآن موجود ہے۔
بے روزگار کرا کے وہ ہماری بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے تھے‘ جس بلوچ کی گاڑیوں کے فراڈ کاروبار میں انہوں نے ہمارے سوا دو لاکھ روپے لگوائے تھے وہ چند ماہ منافع دے کر بھول ہی گیا‘ کئی بار ہم نے موصوف کی اس طرف توجہ دلائی‘ موصوف کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا وہ تو درجنوں چیلے چانٹے لے جا کر اسکے ہاں اسلام آباد میں کئی کئی دن ٹھہرتے اسکی گاڑیاں استعمال کرتے۔ الیکشن میں اس سے بے دریغ پیسہ بھی خرچ کرایا‘ اس سے کہتے تو کس منہ سے کہتے‘ پیارا انہیں وہ ہوتا کہ ہم۔ ہمیں ایک ایک لمحہ ڈس رہا تھا اور حضرت صاحب چالیس روز خود ساختہ اعتکاف میں جا بیٹھے۔ حضرت صاحب اعتکاف سے باہر آئے تو ہمارے شدید احتجاج پر میٹنگ بلائی گئی۔ حضرت صاحب نے ایک لمبی چوڑی تقریر جھاڑی۔ جس میں اپنے آپ کو بڑا درویش‘ صابر اور بیوی کا مقروض قرار دیا۔ ہم نے عرض کی طاہر صاحب یہ بتائیے آپ کی یہ تقریر دل پذیر کیا ہمارے چولہے میں آگ جلا سکتی ہے؟ ہمارے تیور دیکھ کر طاہر صاحب خلیل صاحب کو باہر لے گئے اور واپس آ کر ہمیں ادائیگی کر دی گئی۔ یہ ادائیگی مقبول بلوچ کی کچھ گاڑیوں کے عوض کی گئی تھی جو ادارے نے اپنے قبضے میں لے لی تھیں۔ ہم نے سارے قرضے اتارے اور پھر ہاتھ کے خالی‘ دل کے قلندر کہلانے لگے۔ اس واردات کا افسوسناک ترین پہلو یہ ہے کہ خلیل قادری صاحب نے ہمیں بتایا کہ طاہر صاحب نے باہر لے جا کر انہیں ہدایت کی تھی کہ اس شخص کو ادائیگی فوراً کر دی جائے ورنہ یہ مشن کو بدنام کر دےگا.... کہاں ہم ہر قدم پر ساتھ رہتے تھے کہاں بالکل غائب ہو گئے۔ تحریک کے لوگوں نے ان سے پوچھا تو فرمایا پیسے مانگتا تھا‘ نکال دیا....
موصوف اپنی کرامات بڑے فخر سے بتایا کرتے:۔ میں چلتا تو بھیڑیں چل پڑتیں میں رکتا تو رک جاتیں‘ اہلیہ کو غصے میں اندھی کہہ دیا وہ واقعی اندھی ہو گئیں اور پھر انکی دعا سے آرام آیا۔ اسی طرح دھاڑیں مار مار کر وہ خواب بیان کیا کرتے تھے اور حضور کے بارے میں گستاخانہ الفاظ کہہ جاتے۔ ہم انہیں کہتے کہ انہوں نے حضور والے خواب نہیں دیکھے‘ ضرور دیکھے ہونگے لیکن تعبیریں وہ اپنی مرضی کی لیتے ہیں۔ ہر مطلب کے آدمی کو نوید سناتے کہ خواب میں حضور نے انکی خدمات کو بڑا سراہا ہے۔
طاہر القادری صاحب کو امام خمینی بننے کا شوق تھا لیکن انداز سارے رضا شاہ پہلوی والے تھے۔ ایک صاحب نے مجلس شوریٰ میں پوچھا آپ مخالفین کےساتھ کیوں جا بیٹھے‘ تڑپ کر بولے خبروں میں ”IN“ بھی تو رہنا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہو گی کیونکہ انکی ہوس شہرت کے ہم عینی گواہ ہیں۔ ایک رات ان کے دولت کدے پر فائرنگ ہوئی ہم صبح صبح دوڑے گئے۔ پولیس افسران اور شہباز صاحب نے جائے واردات کا معائنہ کیا‘ دو کالے بکروں کا صدقہ دیا گیا۔ اس واقعے کا مرکزی کردار ان کا اپنا سالا قدرت اللہ تھا جس نے برآمدے میں کھڑے ہو کر خوب گولیاں چلائی تھیں‘ پڑوس کے باتھ روم کی چھت پر جو خون تھا وہ تحقیق کرنے پر کسی جانور کا نکلا تھا۔ حضرت صاحب پنجاب کی حکومت کو بدنام کرنےکی غرض سے عدالت چلے گئے۔ عدالت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ بقول مفتی محمد خان قادری صاحب عدالت کا فیصلہ الہامی فیصلہ تھا عدالت نے موصوف کے تمام محاسن گنائے تھے‘ جھنگ کی ایک ادنیٰ فیملی کا سپوت‘ محسن کش جھوٹا‘ شہرت کا بھوکا‘ دولت کا پجاری اور جانے کیا کیا‘ پیر فضل حق صاحب نے درست کہا کہ اگر وہ مصطفوی انقلاب کا ڈھونگ رچانا چھوڑ دیں تو انکے پلے رہتا ہی کچھ نہیں۔قدرت اللہ کہا کرتا تھا میری زبان نہ کھلوا¶ ورنہ قیامت آجائیگی۔ اسکی شادی کراچی کے ایک متمول شخص کی بیٹی سے کرا کے اسے آسٹریلیا بھیج دیا گیا“۔ (ختم شد)