برطانیہ میں ریفرنڈم کے بعد کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہوتی جارہی ہے۔ معاملات اور حالات دِن بدن خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اوورسیز پاکستانی بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے سے گریزاں ہیں اس کی وجہ وہ برٹش ہیں جنہوں نے ریفرنڈم کے ذریعے یورپین ممالک سے انخلاءکے حق میں ووٹ دیئے۔ برٹش اس فیصلہ کے بعد تارکین وطن کو اپنے ملک برطانیہ میں دیکھنا نہیں چاہتے جس بناءپر وہ تارکین وطن کے راستوں کو تنگ کرنا اور انہیں روڈ پر کھڑے کر کے برطانیہ چھوڑنے کی ترغیب دینے لگے ہیں جس سے مقامی پولیس بھی باخبر ہے اور حالات پر قابو پانے کیلئے تارکین وطن کو کول ڈاﺅن رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات پر قابو پانے اور مزید بگاڑ پر ماحول کو سازگار بنانے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان حکومتی سطح پر کاوشوں کا آغاز کرے۔ پاکستانی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ برطانوی حکام اور برٹش تنظیموں کے ساتھ اپنے رسم بڑھاتے ہوئے انہیں یہ یقین دلائیں کہ برطانیہ بھی پاکستان کی طرح ان کا ہی ملک ہے تاکہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ برٹش پاکستانیوں کو سعودیہ عرب کی طرح مسائل کے گرداب میں پھینک دیا جائے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے 3 ماہ کا طویل عرصہ بڑی پریشانی اور کرب میں گزارا۔ سفارت خانہ انکی اپنے تئیں مدد تو کرتے رہے لیکن وہ ناکافی تھی جس کی وجہ حکومتی سطح پر اور بڑے پیمانے پر کاوشیں نہ کرنا تھا۔ آج برطانیہ میں بھی اس بات کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ کہیں سعودیہ کی طرح حکومت آئندہ ویزہ دینے سے انکار کر دے اور بیروزگار پاکستانی بے یارومددگار ٹھوکریں کھانے لگیں۔ اس بری خبر سے بچاﺅ کیلئے آج سے ہی مثبت کاوشوں کی ضرورت ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح وفاقی وزیر سمندر پار پاکستانیوں پیر صدرالدین راشدی نے سعودیہ سے اپنی کاوشوں کا آغاز کر کے معاملات اور حالات کو مزید بگاڑنے سے بچا لیا چونکہ وزیر موصوف یورپ برطانیہ میں اپنا ایک علیحدہ حلقہ احباب رکھتے ہیں جن میں ان کے مریدین بھی شامل ہیں انکے ذریعے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ جدہ میں مقیم پاکستانی گزشتہ چند ماہ سے تنخواہوں کی عدم دستیابی سمیت دیگر مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔ وزیراعظم پاکستان نے انکی دادرسی اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے وفاقی وزیر سمندر پار پاکستان پیر صدرالدین راشدی کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دیتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ سعودیہ میں مقیم ہم وطنوں کو جلد سے جلد ان مسائل کے گرداب سے باہر نکالا جائے جس کی وجہ سے وہ پریشان حال ہیں۔ سعودیہ میں مقیم پاکستانی بالخصوص اوورسیز پاکستانی جہاں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے شکرگزار ہیں بالکل اسی طرح وہ وزیر سمندر پار پاکستان پیر صدرالدین راشدی سے بھی والہانہ عقیدت رکھتے ہیں جس کی بنیادی وجہ پیر محترم کا ذاتی کردار اور کام میں دلچسپی ہے آپ نے وزارت کا چارج لیتے ساتھ ہی ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا۔ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل دی۔ OPF کو ازسرِنو منظم کیا۔ ہاﺅسنگ سکیم، سکول و کالج میں کوٹہ، ہسپتالوں میں علاج دیگر لاتعداد ایشوز پر تیز رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کیساتھ براہ راست رابطہ اور انکے مسائل سننے کیلئے دلچسپی ایک اہم اور زبردست پیشرفت تھی۔ وفاقی وزیر پیر صدرالدین راشدی انتہائی کھرے اور انسانیت سے پیار کرنیوالی شخصیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی ہدایت کے فوری بعد آپ نے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے کر سعودی حکومت کیساتھ مذاکرات کا ایک کامیاب سلسلہ شروع کیا۔ آپ نے جدہ پہنچ کر سب سے پہلے سفارت خانہ کے افسران کو ہدایات جاری کیں کہ حکومت کسی پاکستانی کےساتھ زیادتی برداشت نہیں کریگی۔ روزمرہ کی بنیاد پر پاکستانیوں سے ملاقات کی جاتی۔ انہوں نے 10,395 پاکستانیوں کو پاسپورٹ فراہم کرنے کا حکم دیا اور سعودی حکومت کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کر کے انہیں وہاں مقیم پاکستانیوں کیلئے پٹرولیم کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات کیساتھ ساتھ افرادی قوت کیلئے کام کیا جو ایک اہم قدم ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو استحکام ملا اور قوم کا ہمیشہ سعودیہ کیساتھ اعتماد بڑھا۔ ان حالات میں سعودیہ کیساتھ مزید تعلقات کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پیر صدرالدین راشدی نے جس محنت‘ محبت‘ جانفشانی ‘لگن اور سوچ کیساتھ سعودی حکام کے سامنے اپنوں کا مقدمہ پیش کیا۔ وہ قابل تحسین و قابل فخر ہے۔
یہ اہم پیشرفت ہے۔ وفاقی وزیر نے تمام تر مسائل پر بات کی اور ان کا مسئلہ حل کر کے سفارت خانہ پاکستان کو ہدایت کر دی کہ تمام پاکستانیوں کو فوری اور ضروری پاسپورٹ کی سہولت جلد از جلد فراہم کی جائے تاکہ انہیں فوری کام اور ویزہ مل سکے۔ وفاقی وزیر کے دورہ سعودیہ کے دوران پاکستانی سفارت خانہ کے حکام، کمیونٹیز اتاشی نے جس مسلسل محنت سے اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا وہ کاوشیں قابل تحسین اور حوصلہ افزاءہیں۔ چوہدری نثار علی خان (وفاقی وزیر داخلہ) کے حکم اور پالیسی کے باوجود انہیں پاسپورٹ کے حصول میں دشواریاں ہیں۔ اگر انہیں پاسپورٹ مل جائیں تو وہ قانونی حیثیت کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ حکومت اس طرف سنجیدگی سے غور کرے تاکہ سعودیہ جیسے مسائل یورپ برطانیہ میںنہ پیدا ہو سکیں ان کیلئے بھی اُمید کی کرن پیدا ہو سکے۔
امید کی کرن
Sep 17, 2016