عمران خان اکتوبر تک پسپائی اختیار کر لیں

ہم نے کبھی عمران خاں کو مشورہ نہیں دیا مگر آج ہم انہیں 15 اکتوبر تک اپنا مارچ اور احتجاجی جلوس جو وہ رائے ونڈ تک لے جانا چاہتے ہیں کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اگرچہ طاہر القادری کے دوسری مرتبہ منظر سے ہٹنے کے پیچھے بھی کہانیاں گردش میں ہیں مگر ہماری نظر میں اگر شریف خاندان کے کسی فرد نے انہیں ”راضی“ کیا ہے تب بھی انہوں نے خود کو منظر سے ہٹا کر عقل مندی کا ثبوت دیا۔ فی الحال جنرل راحیل شریف کسی بھی قسم کی مداخلت کا ”موڈ“ نہیں رکھتے۔ وہ قدم پھونک پھونک کر نہایت محتاط انداز میں اندرونی و بیرونی جارحیت کا توڑ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنا رائے ونڈ جلسہ عام ملتوی کرنے کی وجوہات معقول ہیں .... اقوام متحدہ میں وزیراعظم شاید کھل کر کشمیری عوام کا مقدمہ اور ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے جاندار موقف پیش کرنے جا رہے ہیں۔ جب بھٹو شملہ میں اندرا سے مذاکرات کرنے جا رہے تھے تو ساری اپوزیشن نے مل کر انہیں روانہ کرکے قومی اتحاد کا ثبوت دیا تھا۔ اس وقت عمران خان نواز شریف کی حمایت بے شک نہ کریں مگر اپنا احتجاج ملتوی کرکے وزیراعظم کو قومی موقف اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا موقعہ دیں۔ عمران خان اگرچہ بہت مخلص ہیں مگر اخلاص کے باوجود وہ متعدد بار غلطیاں کر چکے ہیں جس سے انہیں بھرپور عوامی حمایت کے بعد کمی کا سامنا ہے۔ رائے ونڈ جانے کا فیصلہ اور وہ بھی محرم سے پہلے شاید انکی ماضی کی بڑی غلطیوں میں اضافہ کرے گا انکے حامی مثلاً مسلم لیگ (ق) انہیں رائے ونڈ جانے سے منع کر چکی ہے۔ عمران خان ذرا سوچیں انتخابات سے قبل انہوں نے پارٹی میں انتخابات کروا کر اپنی پارٹی ہی کو توڑ لیا تھا۔ پاکستان ترقی یافتہ ملک نہیں جیسے برطانیہ و امریکہ ہیں۔ یہاں سب کچھ پاکستانی رسم و رواج کے مطابق ہونا چائے۔ جمہوری پارٹی بنانے کے امریکی و مغربی طریقوں نے ان سے انکی پارٹی ہی چھین لی ہے اور وہ داخلی کشمکش میں مبتلا ہے۔ محرم سے قبل رائے ونڈ جا کر وہ محض اپنی تسکین دل و دماغ تو کر سکیں گے مگر عملاً وہ تنہائی میں مزید اضافہ کر لیں گے۔ چلیے آپ نے رائے ونڈ میں بہت بڑا جلسہ کر بھی لیا تو محرم آنے کی وجہ سے اس کا اثر تو زائل ہو جائے گا۔ اگر اپنی توانائی کو عمران خان 15 اکتوبر یعنی محرم کے بعد استعمال کریں تو انکی تنہائی جہاں ختم ہو گی وہاں وہ اتمام حجت بھی کر چکے ہوں گے۔ عمران خان اور شہباز شریف دو ایسے کردار ہیں جو ہمیں آخر اکتوبر نومبر میں بھرپور ”فارم“ میں دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان اس عرصے تک خود کو ملتوی کر لیں۔ ہاں ذہنی طور پر کچھ مدت کے لئے شہباز شریف کی عوامی مقبولیت میں اضافے کی تلخ حقیقت کو قبول کر لیں جس طرح انکے مخالفین انکی عوامی مقبولیت کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لینے پر مجبور ہوں گے یہ بات ہم اپنے تجزیاتی وجدان کی بنا پر لکھ رہے ہیں۔
عمران خان کو اسلامی تاریخ سے رہنمائی لینے کا اشتیاق رہتا ہے ہم انہیں اسلامی تاریخ سے ”پسپائی“ کی مثالیں دیتے ہیں (1) صلح حدیبیہ بظاہر اہل مدینہ کی سیاسی شکست سے لبریز تھا مگر ایسی شرائط کے باوجود آنحضرت نے اسے قبول کرکے اپنی توانائی کو بچا لیا اور کوئی نقصان اٹھائے بغیر واپس مدینہ آگئے۔ دو سال بعد یہی پسپائی اہل مدینہ کی سیاست کے لئے کامیابی لائی اور اہل مکہ سیاست اس معاہدے میں تبدیلیوں کے لئے مجبور ہوئے۔ (2) آنحضرت نے بصریٰ کے غسانی حاکم کو دعوت اسلام دیکر خط پیش کرنے کے لئے اپنا صحابی بطور سفیر بھیجا مگر جب مسلمان سفیر موتہ سے گزرا تو ایک غسانی عیسائی سردار شرجیل بن عمرو نے اسے قتل کر دیا۔ آنحضرت نے فوراً ایک مہم تیار کی زیدؓ بن حارثہ کو قائد مقرر کرکے تین ہزار سپاہ بنائی پھر حکم دیا۔ زیدؓ اگر شہید ہو جائیں تو جعفرؓ بن ابی طالب قیادت سنبھالیں۔ اگر وہ بھی شہید ہوں تو عبدؓاللہ بن رواحہ قیادت سنبھالیں اگر تینوں شہید ہو جائیں تو لشکری جسے چاہیں اپنا امیر مقرر کر لیں۔ یہ اتفاقیہ امر تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا الہامی وجدان کہ تینوں شہید ہوئے اور پھر لشکر نے خالدؓ بن ولید کو امیر چن لیا۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کو شہنشاہ ہرقل کی فوج جو قبیلہ غسان کے عیسائی عرب تھے نے شکست سے دوچار کر دیا۔ خالدؓ بن ولید نے بڑی مشکل سے اس شکست کو واضح شکست میں بدلنے سے روکا اور بالآخر لشکر کو ”محفوظ“ بنا کر ”پسپائی“ اختیار کر لی۔ اس ”محفوظ پسپائی“ کی وجہ سے آنحضرت نے خالدؓ بن ولید کو ”سیف اللہ“ کا خطاب دیا اور لشکر کو محفوظ بنا کر واپس آنے کو پسند فرمایا۔ خالدؓ بن ولید اور ابو عبیدہ بن الجراح یکے بعد دیگر شام کو فتح کرنے والی فوج کے آرمی چیف بنے۔ جب ہرقل نے شام میں شکستوں کا بدلہ لینے کے لئے عظیم فوج کا بندوبست کیا جس نے مسلمان فوج کے تمام لشکروں کو محاصرہ میں لیکر کچل ڈالنے کا منصوبہ بنایا تو ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کے مشورے سے دمشق جوکہ مفتوحہ تھا کو خالی کیا اور محفوظ پسپائی اختیار کرکے میدان یرموک میں ہرقل کی فوج سے مقابلہ کیا اور ہرقل کی فوج کی کمر توڑ دی۔ مگر یہ عظیم واقعہ تب وقوع پذیر ہوا جب آرمی چیف ابو عبیدہؓ نے ماتحت خالدؓ کا مشورہ قبول کرکے دمشق کو خالی کر دیا۔ گویا پسپائی اختیار کر لی۔ پہلا واقعہ صفحہ 95 تا 98 اور دوسرا واقعہ شب یرموک کے عنوان سے صفحہ 381 سے یرموک عنوان صفحہ 397 سے آگے تک جنرل آغا ابراہیم اکرم نے اپنی مشہور کتاب اللہ کی تلوار خالد بن ولید میں بیان کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...