کھیل کوئی بھی ہو اس وقت تک ترقی نہیں کرتا جب تک اس کے کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ موجود نہ ہو۔ ایک اچھا کھلاڑی بننے کے لیے شوق کے ساتھ ساتھ جنون کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سائیکلنگ کا شمار پاکستان کے ان کھیلوں میں ہوتا ہے جو ابھی اپنی ترقی کی منازل کو طے نہیں کر سکا ہے تاہم اس کے عہدیدارا اس کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے قومی کھلاڑیوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیل کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان میں سائیکلنگ کے لیے ایک کھلاڑی کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس حوالے سے ہماری خصوصی نشست سابق انٹرنیشنل اور پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کے موجودہ نائب صدر معظم خان سے ہوئی۔ معظم خان جو پنجاب سائیکلنگ ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں انہوں نے اپنے سائیکلنگ کیرئر کے متعلق تفصیل سے بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری خود سائیکلنگ میں انٹری بڑی حادثاتی ہوئی ہے۔ اس سے قبل کرکٹ کا ایک اچھا کھلاڑی تھا اور میرے اندر کرکٹ کا جنون سر چڑھ کر بولتا تھا۔ پاکستان واپڈا ٹیم کے منیجر ممتاز ریاض مجھے سائیکلنگ میں لانے والے شخص ہیں جنہوں نے مجھے سائیکلنگ شروع کرائی۔ جیسے جیسے سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ لیتا گیا میرے کھیل میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔ جب میں نے دیکھا کہ میں نے سائیکلنگ ہی کرنی ہے تو میں نے سائیکلنگ میں بھی کرکٹ والا جنون لے آیا اور یہ فیصلہ کیا کہ اس میں نمبر ون کی پوزیشن حاصل کر کے پاکستان ٹیم کی بین الاقوامی مقابلوں میں نمائندگی کرنی ہے۔ اگر میں سائیکلسٹ نہ ہوتا تو ایک اچھا کرکٹر ضرور ہوتا۔ معظم خان کا کہنا تھا کہ میرا سائیکلنگ کیرئر اتنا لمبا نہیں ہے لیکن جتنی بھی سائیکلنگ کی اچھے طریقے سے کی تاکہ لوگ یاد رکھیں۔ ایران میں پاکستان کی ٹور ڈی سائیکل ریس کی طرز پر روڈ سائیکل ریس کا انعقاد ہوتا ہے۔ 1983ءمیں ایران کے دورہ کے لیے پاکستان ٹیم کے انتخاب کے لیے ٹرائل ہوئے تو اس میں میں نے بھی شرکت کی۔ ٹرائلز کے دوران سائیکلسٹ کا ایک گروپ تھا جو کسی دوسرے یا نئے کھلاڑی کو آگے نہیں آنے دیتا تھا میں نے اس گروپ میں جب آگے نکلنے کی کوشش کی تو فنش لائن سے پہلے فاول پلے کے ذریعے ایک سینئر سائیکلسٹ نے مجھے گرا دیا جس سے میرے جسم پر بہت زیادہ چوٹیں آئیں۔ میرا تمام جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا بہر کیف مجھے ایران کے لیے پاکستان ٹیم میں منتخب کر لیا گیا۔ ایران میں پاکستانی سائیکلسٹ نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے علاوہ ٹور ڈی متحدہ عرب امارات میں بھی شرکت کی۔ یہ ریس سائیکلسٹ کے لیے بڑی مشکل ہوتی ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں پر سائیکلسٹ کو چڑھائی چڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے نمبر ون سائیکلسٹ نصرت خان اس چڑھائی پر چڑھنے میں ناکام رہے تھے جبکہ میں نے چڑھائی کا یہ مرحلہ مکمل کر لیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اگر نصرت خان وہ مرحلہ مکمل کر لیتے تو یو اے ای ریس کے چیمپیئن بن جاتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ معظم خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی ٹور ڈی پاکستان سائیکلسٹ ریس کے چار ایونٹس میں حصہ لے چکا ہوں۔ مجھے اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کی پہلی ٹورڈی پاکستان سائیکل ریس کا بھی حصہ رہا ہوں جبکہ چوتھے ایونٹ میں وکٹری سٹینڈ پر میری تیسری پوزیشن آئی تھی۔ ٹور ڈی پاکستان سائیکل ریس جیسے ایونٹ لازمی ہونے چاہیے کیونکہ یہ ریس ملک کے مختلف حصوں سے ہو کر گزرتی ہے جس سے نئے کھلاڑیوں میں بھی سائیکلسٹ کا شوق پیدا ہوتا ہے اور لوگوں میں آگاہی پیدا ہوتی ہے کہ یہ بھی ایک کھیل ہے۔ آج کے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ وہ انٹرنیشنل مقابلوں کو سامنے رکھتے ہوئے تیاری کریں۔ کسی انٹرنیشنل مقابلے میں صرف شرکت برائے شرکت ترجیح نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس میں کوئی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے کوچز کو بھی اپنے کھلاڑیوں کو نمبر ون پوزیشن کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ معظم خان کا کہنا تھا کہ جب میں نے سائیکلنگ کو شروع کیا تو گھر والوں کی جانب سے تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم جیسے جیسے کامیابیاں ملتی گئیں گھر والوں نے بھی سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ میرے ماں باپ میری کامیابی کے لیے بڑی دعائیں کرتے تھے۔ مجھے سائیکلنگ کا اتنا جنون تھا کہ روز سائیکل لیکر پریکٹس کے لیے جاتا تھا ایک دن گہرے بادل چھائے ہوئے تھے میں سائیکل لیکر گھر سے نکلنے لگا تو میری والدہ کا کہنا تھا کہ بارش آ جائے گی نہ جاوں تو میں نے انہیں کہا کہ ماں جی اگر ریس والے دن بارش آ گئی تو کیا کروں گا تو انہوں نے مجھے دعائیں دیتے ہوئے رخصت کیا۔ ہمارے دور میں کھلاڑیوں کے پاس اچھی سائیکلیں نہیں ہوا کرتی تھیں آج کھلاڑیوں کے پاس اچھی سائیکلیں موجود ہیں لہذا انہیں رزلٹ بھی فراہم کرنے چاہیے۔ ہمارے زمانے میں بہت کم کھلاڑیوں کے پاس نوکریاں ہوا کرتی تھیں آج کوئی بھی کھلاڑی اگر محنت کرتا ہے تو اسے اچھی نوکری آسانی سے مل جاتی ہے۔ میں نے پاکستان واپڈا کی نمائندگی کی ہے اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ نیشنل گیمز میں پاکستان واپڈا کے لیے گولڈ میڈل حاصل کرنے والا پہلا سائیکلسٹ ہوں۔ 1986ءکی نیشنل گیمز میں یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔ معظم خان کا کہنا تھا کہ جب تک ہماری کھیلوں کو حکومتی سپورٹ حاصل نہیں ہوگی ہم ترقی نہیں کر سکتے ہیں۔ پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن اپنے محدود وسائل میں سائیکلنگ کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔ آج کل پاکستان سائیکلنگ ٹیم بھارت کے دورہ پر ہے جہاں وہ پہلی ساوتھ ایشین ٹریک سائیکلنگ چیمپیئن شپ میں شریک ہے توقع ہے کہ ہمارے کھلاڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرینگے۔