واشنگٹن (اے پی پی+ نیٹ نیوز) 7 اکتوبر کو امریکی قیادت میں افغانستان میں کی گئی فوجی کارروائی کو 15 سال مکمل ہو جائینگے۔ امریکی قانون ساز اس حوالے سے فوجی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاری اخراجات پر سوال اٹھا رہے ہیں جس کا مقصد لڑائی بند کرنا اور حکومت کو مستحکم کرنا ہے۔ سینٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے ارکان نے لڑائی میں حاصل ہونے والی پیشرفت اور بدعنوانی کے انسداد کے پروگرام کے مؤثر ہونے پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔ امریکی خصوصی نمائندہ رچرڈ اولسن نے کہا ہے کہ ہر سال امریکہ افغانستان کو قریباً 5 ارب ڈالر فراہم کرتا ہے جن میں سے چار ارب ڈالر افغان قومی سلامتی دفاعی افواج کے لیے اور اندازاً ایک ارب ڈالر سویلین امداد کے طور پر ہوتے ہیں۔تاہم ٹینیسی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کروکر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سالہا سال سے امریکہ افغانستان پر اِسی طرح بڑی رقوم خرچ کرتا رہا ہے جس کا ثمر شاید امریکی عوام فوری طور پر نہ دیکھ پائیں۔اْنھوں نے پینل سے سوال کیا کہ آیا امریکی عوام ہر سال 10 ارب ڈالر دیتے رہیںگے۔ یو ایس ایڈ میں افغانستان و پاکستان کے معاون منتظم ڈونالڈ سیمپلر جونیئر نے کہا کہ ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت افغانستان کی حمایت کرنا، اپنے ملک کی خود عمل داری سنبھالنے کے کام میں اسے مدد دینا بغاوت نہ ہونے دینا زیادہ بہتر ہے۔ یہ زیادہ مناسب سرمایہ کاری ہوگی۔سینیٹروں نے خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا بھی اظہار کیا۔اولسن نے کہا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ چند ہزار لڑاکے ہیں جن میں سے 1500 سے 2000کے قریب ننگرہار کے مشرق میں موجود ہیں۔ افغان حکومت اْن کے خلاف لڑائی میں متحرک کردار ادا کر رہی ہے، ہماری افواج اْن کے خلاف فضائی کارروائیوں میں مدد دے رہی ہیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ افغانستان میں طالبان اور داعش ایک دوسرے کے خلاف ہیں، طالبان کے عزائم داخلی جبکہ داعش کا ایجنڈا عالمگیر ہے۔ بی بی سی کے مطابق اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک وہ بیرونی ملکوں پر حملہ کرنے والے گروہوں کو برداشت کرتے رہنے کی پالیسی نہیں بدلتا۔ یہ بیان سینٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے سامنے افغانستان پر ہونے والی بحث کے دوران سامنے آیا۔ رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ پاکستانی اہلکاروں کے ساتھ بات چیت میں یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ انھیں تمام شدت پسند تنظیموں کو بلاامتیاز نشانہ بنانا ہو گا۔ قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کی کارروائیاں انتہائی اہم ہیں۔ کچھ سینیٹروں کی رائے تھی کہ پاکستان قابل اعتماد شراکت دار نہیں، حقانی نیٹ ورک کا ساتھ دے کر افغانستان میں امریکہ کے خلاف کام کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اولسن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اس سے خطے میں استحکام قائم ہو گا اور ہمسایہ ملکوں اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوں گے لیکن اگر پاکستان نے ایسا نہ کیا تو وہ دنیا میں اکیلا رہ جائے گا۔ اولسن نے حقانی نیٹ ورک اور بھارت کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ پاکستان مقامی دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ دوسری تنظیموں کے ساتھ نئی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتا۔ افغانستان میں امن سیاسی حل کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے، اس کے لیے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات قائم ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کی شکایت رہی ہے کہ وہ شدت پسندی کے خلاف جتنی بھی کارروائیاں کرے اس سے ہمیشہ مزید (’ڈومور‘) کی توقع کی جاتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ افغانستان‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے البتہ خود مختار ریاست ہونے کے ناطے افغانستان کا حق ہے کہ وہ کسی ملک کو تجارت کے لیے راہداری فراہم کرتا ہے یا نہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ امریکہ کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ خطے کے ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کی حوصلہ افزائی کرے۔ پاکستان افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان خودمختار ملک ہے۔ یہ اس کا حق ہے کہ وہ کس ملک کو تجارت کے لئے اپنی سرزمین سے راستہ فراہم کرتا ہے تاہم امریکہ خطے کے ممالک کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے۔