اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں جائیداد کی قیمتوں کے تعین کے لئے انکم ٹیکس ترمیمی بل پر غور کیا، چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ بل کے تحت جائیداد کی قیمتوں کے تعین کا اختیار ایف بی آر کو دے دیا گیا ہے، تمام شہروں کے لئے جائیداد کی قیمتوں کا ازسرنو تعین کیا گیا ہے، جائیداد کی قیمتیں راتوں رات طے نہیں کی جا سکتیں، یہ قیمتیں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے ساتھ مذاکرات کے بعد طے کی گئی ہیں، بجٹ سے قبل تمام شہروں میں جائیداد کی قیمتوں پر نظرثانی کی جائے گی، قیمتیں اگرکم ہوئی ہیں تو یہ اچھی بات ہے اس سے عام آدمی کو پراپرٹی خریدنے میں آسانی ہو گی، صوبوں کا ڈی سی ریٹ تبدیل نہیں کیا، ایف بی آر ضلعی سطح پر پراپرٹی کی قیمتیں معلوم کرنے کےلئے اپنے ذرائع استعمال کرتا ہے، ایف بی آر ٹیکس صرف وفاقی سطح پر وصول کرتا ہے، زمین کا مارکیٹ قیمت کم ہونے سے ٹیکس کم وصول ہوتا تھا، اب مارکیٹ قیمت میں اضافے سے ٹیکس وصولی بڑھے گی، پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے طاقتور لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے پراپرٹی بزنس سے صرف آٹھ سو ملین ٹیکس اکٹھا ہوتا تھا جو شرمناک ہے۔ سینٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بجٹ میں جائیداد کی قیمتوں کا تعین سٹیٹ بینک کو دیا گیا تھا۔ حکومت نے یہ اختیار سٹیٹ بینک سے لے کر ایف بی آر کو دے دیا ہے۔ کیا جائیداد کی قیمتوں کے تعین کا اختیار ایف بی آر کو دینا درست ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ نئے ڈی سی ریٹ کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمتیں گری ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ صوبوں کا ڈی سی ریٹ تبدیل نہیں کیا۔ ایف بی آر ضلعی سطح پر پراپرٹی کی قیمتیں معلوم کرنے کےلئے اپنے ذرائع استعمال کرتا ہے۔ سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ بجٹ سے قبل خزانہ کمیٹی کے اجلاسوں میں دی گئی تجاویز کو وزارت خزانہ اور ایف بی آر پہلے مان لیتی۔ بجٹ میں جائیدا د کی قیمتوں کا تعین سٹیٹ بنک کو دیا گیا اور سوال اٹھایا کہ کیا جائیداد کی قیمتوں کا اختیار ایف بی آر کو دیا جا سکتا ہے کہا کہ ٹیکس بڑھانے کی بجائے ود ہولڈنگ پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے بیرون ملک دوروں میں بنک ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس پر لوگ حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ بل میں ترمیم سے متعلق ہماری باتوں کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہم سے مشاورت کے بعد تجاویز دی جاتیں لیکن ایک بات بھی نہیں مانی گئی صوبہ سندھ نے پہلے ہی اس پر شدید احتجاج کیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی میں اعتراف کیا تھا کہ ادارے میں چار سو ارب کی کرپشن ہوتی ہے پراپرٹی والا کام بھی یہ کریں گے تو کرپشن دوگنا ہو جائے گی، کسی صور ت چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے، پراپرٹی ٹیکس اکٹھا کرنا صوبوں کا اختیار ہے۔ کامل علی آغا، الیاس بلور اور محسن عزیز نے کمیٹی کے اجلاس سے احتجاجاً واک آﺅٹ کیا۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ پراپرٹی ٹیکس پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا، صرف ویلیو بڑھے گی، الیاس بلور نے کہا کہ پشاور حیات آباد میں کنال کے پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ 80 لاکھ لگائی گئی ہے مارکیٹ میں پلاٹ ایک کروڑ 20 لاکھ میں باآسانی مل جاتا ہے، ایف بی آر پر کسی کو یقین نہیں اسلام آباد کے بارے میں آگاہ کریں کتنے لوگ اور دکاندار ٹیکس دیتے ہیں۔ سینیٹر محسن عزیز نے بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آزاد ویلیوایٹر کے ذریعے جائیداد کی مالیت کا تعین کیا جانا چاہئے، ایف بی آر کے پاس مخصوص شعبوں میں ماہرین موجود نہیں، کالے دھن کو سفید کرنے کی پالیسی اپنی جگہ لیکن کہیں جائیداد کی قیمت کم اور کہیںجائیداد کی قیمت زیادہ فارمولا درست نہیں، فی مربع فٹ ریٹس کے تعین کےلئے قابل عمل فارمولا بنایا جائے خاصا ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹر عائشہ فاروق نے کہا کہ کروڑوں کی پراپرٹی والے لاکھوں ظاہر کر کے ٹیکس سے بچ جاتے ہیں۔ سردار فتح حسنی نے کہاکہ پہلے ریٹ کو ایک سال کےلئے مختص کریں پھر بڑھائی ڈی سی ریٹ پر فیصلہ نہ ہوا تو ملکی معیشت پر برے اثرات ہونگے۔ محسن لغاری نے کہا کہ اگر مالیت کا اندازہ کرنا ہے تو غیرجانبدار مالیت کا اندازہ کرنے والے بھی شامل کئے جائیں۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ قومی خدمات سرانجام دینے والے تمغے حاصل کرنے والے اعزازات حاصل کرنے والے بھی مستثنیٰ ہونے چاہئیں۔ اجلاس میں افواج پاکستان کے شہدا کے علاوہ باقی شہدا کو بھی استثنیٰ کی سفارش کے علاوہ جائیدادوں کا تخمینہ لگانے کےلئے بورڈ یا کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں خصوصی ماہرین شامل کیے جائیں۔
ایف بی آر