ہر طرف جلے ہوئے مکانات ، کٹی پھٹی لہو سے تر بکھری لاشیں، وحشیانہ درندگی اور زیادتی کا شکار نازک بدن ، درختوں کے ساتھ جھولتے یہ بچوں کے جسم ۔۔۔ سوشل میڈیا پہ آنے والی تصویریں برما میں ہونے والی سفاکی، ہولناکی کو اس طرح بیان کر رہی ہیں کہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کے اس ملک برما میں سات لاکھ مسلمان رہتے ہیں اور دنیا کے یہ واحد بدقسمت لوگ ہیں جن کو کوئی ملک بھی اپنا شہری ماننے کو تیار نہیں ۔ جن کے پاس کوئی شہریت نہیں۔1902 میں جب فوج نے یہاں اقتدار پہ قبضہ کیا اس کے بعد سے برمی مسلمان فوج کی آشیرآباد سے بدھ مذہب کے ماننے والوں کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ جو ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مسلمانوں کا جینا عذاب کر دیتے ہیں ۔
برما میں مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پہ حالیہ مظالم کی لہر کا آغاز 3 جون2012 کو اس وقت ہوا جب برما کے دارلحکومت رنگون میں 11 بے گناہ مسلمانوں کو بس سے اتار کر فوجیوں اور بدھ مت پیروکاروں نے مل کر شہید کر دیا۔ ان بے گناہوں کی موت پر جب وہاں کے مسلمانوں نے احتجاج کرنا چاہا تو ان کے مجمع پر وہاں کے فوجیوں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا جس کے بعد گھر جلے، لاشیں بکھریں، عصمتیں لٹیں اور خاموشی چھا گئی اور پھر یہ ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ چشم فلک نے انسانیت سوزی کے ایسے درد ناک مناظر کم ہی کبھی دیکھے ہوں گے ہر کچھ مہینوں سالوں بعد بدھ مت واسیوں کو دورہ پڑتا ہے اور وہ مسلمانوں پہ ابل پڑتے ہیں اور پھر جب ساری دنیا میں شور اٹھتا ہے تو کچھ عرصہ کے لئے خاموش ہو جاتے ہیں اور اب پھر سے ظالم اپنے ظلم کی انتہا پر ہے اور انسانیت منہ چھپائے پھر رہی ہے اور عالمی برادری اور امت مسلمہ کے سب حاکم خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برما میں بیس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان 2013 میں قتل ہوئے اور اب بھی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے ۔ بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ ان کی املاک تباہ کی جا رہی ہیں ۔ خواتین کی بے حرمتی ، عصمت دری کی جا رہی ہے ۔ اس وقت ان کے معاشی حالت بھی بہت خراب ہے ، کاروبار ان کے پہلے ہی برباد کئے جا چکے ہیں اب روزگار کے دروازے بھی بند کئے جا رہے ہیں ۔ قتل و غارت ، مار پیٹ اور لوٹ مار میں نہ کوئی کسی کی عمر کا لحاظ ہے اور نہ ہی جنس کی تفریق ۔ ننھے ننھے شیرخوار بچے اور معمر افراد بھی ان مظالم سے بچ نہیں سکے اب تک لاکھوں مسلمان وہاں سے ہجرت کر چکے ہیں اور ان کی حالت بھی کافی خراب ہے ۔
ہیومن رائٹس و اچ نے 2013 میں ایک رپورٹ 52صفحات پر مشتمل شائع کی تھی جس میں بر ما میں ہونے والے نسلی فسادات کا ذمہ دار وہاں کے بدھ مذہب کے پیشوا اور سیکیورٹی فورسز کو ٹھہرایا گیا تھا ۔ برما کی حکومت اور فوج ان مظالم کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے بلکہ بہت سے تشدد کے واقعات میں خود بھی ملوث پائی گئی ہے ۔ وہاں کی حکومت نے ان غیر انسانی افعال کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی بلکہ اب تک ہزاروں مسلمانوں کو بے گناہ گرفتار اور قتل بھی کر چکی ہے۔ برما کے حالات ایک بہت بڑا المیہ ہیں جس پہ مسلم دنیا کی خاموشی اور بے حسی بہت افسوسناک ہے ۔آخر مسلمانوں کا خون کیوں اس قدر ارزاں ہو گیا ہے ؟ بدھ مت پیروکاروں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ جن کا یہ ماننا ہے کہ ان کا مذہب امن اور محبت کا پیغام دیتا ہے وہ اس وقت کہاں ہیں کیوں ظالموں کا ہاتھ نہیں روکتے وہ خود آکر میانمار کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ بے گناہ مسلمانوں کا کس بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ ان کی لاشوں کی کس طرح بے حرمتی کی جا رہی ہے ۔ عورتوں کی عزتیں کیسے پامال ہو رہی ہیں ۔ حالیہ تشدد کی لہر کے نتیجے میں اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان برما سے بنگلہ دیش جانب ہجرت کر چکے ہیں اور ان کے حالات بھی کافی مخدوش ہیں موت کے پل صراط سے گزر کر نئی زندگی پانے والے یہ لوگ سخت کسمپرسی کی حالت میں ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں کہ نہ ان مظلوموں کے لئے ہمارے دل تڑپتے ہیں ، نہ آنکھ سے آنسو بہتے ہیں ، نہ ہی ان کی ہمدردی میں ان مظالم کے خلاف آواز اٹھتی ہے ۔ سورة النساءکی آیت نمبر75میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں” اور کیا ہوا ہے تم کو کہ نہیں جنگ کرتے تم اﷲ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوں کی خاطر جو فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب نکال تو ہمیں اس بستی سے کہ ظالم ہیں جس کے رہنے والے اور بنا تو ہمارے لئے اپنی جانب سے کوئی مددگار ،، اس کے باوجود ہماری امت مسلمہ پہ یہ کیسی بے حسی طاری ہے کہ لڑنا تو دور کی بات ہم ان مظلوموں کے حق میں آواز بھی نہیں اٹھاتے اور نہ ہی ہمارے قدم ان کی مدد کو آگے بڑھتے ہیں کاش کہ ہمیں اس بات کا احساس ہو کہ اس وقت دنیا کے کسی حصے میں ایسے مسلمان بھی ہیں جن کے لئے جینا موت سے بڑا عذاب ہے ۔ جن کے لئے زندگی کی روشنی قبر کے اندھیروں سے زیادہ تاریک ہے ۔ ان کی ایک ایک سانس ہمیں مدد کے لئے پکار رہی ہے ۔ ایک عالمی ڈونر ایجنسی کے مطابق بڑی تعداد میں خوراک اور ادویات کے ساتھ ساتھ فوری طور پر بنگلہ دیش کی سرحد پر ساٹھ ہزار خیموں ، 15ہزار عارضی غسل خانوں کی ضرورت ہے ۔ برما میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ان سنگین زیادتیوں اور بے گناہوں کا بہتا ہوا لہو ہم سے اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ ہم سب مسلمان ان مظلوموں کا ساتھ دیں ، او آئی سی کا کوئی فیصلہ کن قدم اس نازک لمحے میں نہ اٹھانا بہت مایوس کن ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلمان اس وقت متحد ہوں اور مل کر دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کریں کیوںکہ اگر یہ آگ بڑھ گئی تو کوئی بہت بڑا حادثہ بھی جنم لے سکتا ہے ۔ اقوام متحدہ سے اپیل ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی آزادی اور ان کی شناخت میں اپنا کردار ادا کرے اور ساتھ ہی برما کی مقامی حکومت کے ہاتھ روکے جو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور ان کے مظالم میں برابر کی شریک ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے جب ہم سب مسلمانوں کو اکٹھا ہونے کی اشد ضرورت ہے تا کہ ظلم و بربریت کی وہ داستانیں جو عراق، فلسطین ، یمن اور کشمیر میں دہرائی جانے کے بعد برما کی جانب رخ کئے ہوئے ہیں دوسرے مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں ۔