اسلام آباد(خصوصی نمائندہ)ترجمان سابق وزیرِ داخلہ نے واضح کیا ہے کہ وزیرخارجہ خواجہ آصف کو حساس معاملات پر پہلوں اور مفروضوں کی بجائے حقائق اور ریکارڈ کے مطابق بات کرنی چاہیے ،چھبیس ہزارسے زیادہ شہادتیں ، ستر ہزار سے زیادہ زخمی اور سو ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات کے باوجود بھی ہمیں نکتہ چینی ، تنقید بلکہ تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ کہ ہم خود اپنے بیانات اور رویوں کی وجہ سے اپنے ہی پیچھے پڑے ہیں بیرونی طاقتوں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ ہمارا مذاق اڑائیں اور اپنی ناکامیوں کا بوجھ بھی ہم پر ڈال دیں، عجیب صورتحال ہے آرمی چیف قربانیوں کے عالمی اعتراف اور دنیا کو ڈو مور کا جبکہ وزیرِ خارجہ اور وزیرِ داخلہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو ڈو مور کرنا چاہیے۔ ایسے بیانات کا بنیادی مقصد پاکستان کے حساس اداروں پر بالواسطہ اور پاکستان فوج کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔گذشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کی داخلی سلامتی کی صورتحال میں جون2013اور آج میں زمین آسمان کا فرق نہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے اور ہماری مشترکہ کوششوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ کسی بیرونی مدد یا دباو± کی وجہ سے نہیں۔ ان مشترکہ کوششوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، فوج، سول آرمڈ فورسز، پولیس، انٹیلی جینس ایجینسیاں سب شامل ہیں۔ اب اگر وزیرِ صاحب کو کسی طرف سے کوئی کمی یا کمزوری نظر آتی ہے تو وہ اس کا مداوہ کرتے، کابینہ یا قومی سلامتی کمیٹی میں مسئلہ اٹھاتے۔ وزراءکا کام بیان دینا نہیں بیماری کا علاج کرنا ہے دونوں حضرات ساڑھے چار سال سے وزیرِ ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی کابینہ یا قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں یہ بات کہی؟ یا وزیر موصوف کو علم ہے کہ ان کے بیان کی ہندوستان میں کتنی پذیرائی اور تشہیر ہوئی اور اسے ہندوستان کے اس بے بنیاد موقف کی تصدیق کے طور پر پیش کیا گیا کہ سارا مسئلہ پاکستان میں ہے۔ ایک اور خبر کی وضاحت کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ایک نجی ٹی وی کے اینکر نے بیگم کلثوم نواز کے منہ میں بات ڈال کر ایک انکشاف کیا ہے جو سراسر لغو، بے بنیاد، شر انگیز اور سو فیصد جھوٹ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ متعلقہ اینکر کو یہ بات 17سال بعد کیوں یاد آئی ۔ اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز اس وقت بیمار ہیں اور اس وقت اس حالت میں نہیں کہ اس خبر پر اظہارِ خیال کر سکیں ۔ انکو اس طرح اس حالت میں متنازعہ بنانا کسی صورت مناسب نہیں۔