بجوات سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے 60 سالہ خاتون ریشماں بی بی شہید اور دو افراد میر اسلم اور غلام عباس زخمی ہوگئے۔ اگرچہ رینجرز کی جانب سے منہ توڑ جواب دے دیا مگر کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزی بھارتی فوج کا وطیرہ بن چکی ہے۔ گزشتہ سال 700 سے زائد مرتبہ اور 2016ءمیں 370 خلاف ورزیاں کی گئیں جس کا مطلب ہے ہر روز ایک خلاف ورزی‘ ادھر بھارت افغانستان کے ذریعہ پاکستان کو جو نقصان پہنچا رہا ہے اس کی تصدیق احسان اللہ احسان‘ کلبھوشن یادیو اور چک ہیگل کے بیانات سے ہوگئی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں (ن) لیگ کی حکومت بھارت کے حوالے سے کچھ بدلی بدلی لگ رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے میاں نوازشریف اور ماضی کے حکمرانوں کو حاصل بے ثمر تجربات کا ادراک ہے۔ وزارت خارجہ کے تبدیل شدہ رویہ اور لب و لہجے سے حکومت اور فوج کے ایک صفحہ پر ہونے کا تاثر ابھر رہا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس تاثر کو گہرا نہ سہی برقرار ہی رکھ سکے تو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوگا تاہم ان سے ایسی امید اس لئے بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک شہید فوجی باپ کے وارث ہیں۔
ویسے بھی ہندوﺅں کے چانکیہ فلسفے کے مطابق پڑوسی سے دشمنی اسے الجھا کر رکھنے اور سازشوں کا شکار کرنے کی پالیسیوں پر پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو سے نریندر مودی تک نے پوری طرح عمل کیا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کو انتہاپسند قرار دیا جارہا ہے مگر بھارتیوں کی انتہاپسندی پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال سونیا گاندھی ہے۔ لوک سبھا کی ممبر منتخب ہونے کے بعد جب کانگریس کی صدر کی حیثیت میں وزیراعظم بننے کے امکانات پیدا ہوئے تو آج کی حکمران بی جے پی اور ہندو قوم پرست تنظیموں نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا حتیٰ کہ موجودہ وزیر خارجہ ششما سوراج نے اعلان کیا ”اگر ایک بدیسی عورت (سونیا) کو وزیراعظم بنایا گیا تو میں اپنا سر منڈوا دوں گی“ نتیجہ یہ کہ سونیا گاندھی کی بجائے سردار من موہن سنگھ کو وزیراعظم بنانا پڑا جنہیں وزیر خزانہ بنایا جانا تھا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمان اکثر دھوکا کھا جاتے ہیں‘ وہ عقل و شعور سے بیگانہ نہیں ہیں بلکہ ان کے مذہب میں دھوکا دینا ممنوع ہے‘ اس لئے لاشعوری طور پر دھوکا باز کا اعتبار کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے بھارت کے حکمران اول روز سے دھوکا دیتے رہے اور پاکستان کے حکمران دھوکا کھاتے رہے مثلاً شہید ملت لیاقت علی خان نے رائے شماری کے ذریعہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے اس وعدہ پر یقین کرلیا جو جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ میں کیا۔ جنرل ایوب خان نے اس یقین دہانی کو سچا جان کر کہ جہلم‘ چناب اور راوی کے پانیوں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا جائے گا اپنے دو دریا ستلج اور بیاس بھارت کے حوالے کردیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اندرا گاندھی کی یقین دہانی کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ مذاکرات سے حل کرلیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کو بے اثر کردیا۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی نے شدت اختیار کی بھارت مشکلات کا شکار ہوا وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا جاتا ہے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے اہم رکن نیاز اے نائیک کے ذریعہ اس مسئلہ پر لچک دکھانے کا عندیہ دیا پھر بس میں بیٹھ کر پاکستان آکر اس لچک کا عملی مظاہرہ کیا۔ کارگل کا واقعہ تو بعد میں ہوا واپسی پر امرتسر جاتے ہی جو بیان دیا اس سے اصل نیت و عزائم کھل کر سامنے آگئے۔ یہ بیان آن ریکارڈ ہے البتہ اس کے نتیجے میں کشمیریوں میں مایوسی پھیلی اور ان کی تحریک کمزور پڑ گئی نوازشریف ایک مدت اس باطل سحر کا شکار رہے۔
خالصتان تحریک کے رہنماءڈاکٹر امرجیت سنگھ کے بقول بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے وزیراعظم بےنظیر بھٹو کو پاکستان کا دورہ کرنے کا پیغام بھیجا اس وقت مشرقی پنجاب میں سکھوں کی تحریک عروج پر تھی‘ بھارت شدید مشکلات کا شکار تھا راجیو گاندھی نے اسلام آباد آکر بےنظیر بھٹو کو یقین دلایا کہ اگر بھارت کو موجودہ مشکل حالات سے نکالنے میں مدد دی جائے تو وہ سیاچن گلیشیر سے اپنی فوج نکال لے گا اور اس طرح بینظیر بھٹو کے سیاسی نامہ اعمال میں تاریخی کامیابی لکھی جائے گی۔ ڈاکٹر امرجیت سنگھ کے مطابق بینظیر اس جھانسے میں آگئیں اس پس منظر میں سکھ حریت پسندوں کی فہرستوں کے معاملے پر بہت لے دے ہوتی رہی ہے۔ بینظیر بھٹو کا یہ بیان بھی آن ریکارڈ ہے کہ ”ہم نے بھارت کو مشکل سے نکالنے میں مدد دی مگر بھارت نے جوابی خیرسگالی کا مظاہرہ نہیں کیا“ بھارتی صحافی کلدیپ نیئر نے اس معاہدہ کی تصدیق ان الفاظ میں کی ”راجیو گاندھی بینظیر سے کئے گئے وعدہ پر عمل کرنا چاہتے تھے مگر بھارتی فوج رکاوٹ بن گئی“ ۔ کارگل کے واقعہ پر شدید کشیدگی کے باوجود جنرل پرویز مشرف اقوام متحدہ کی قرارداد سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر حل کرکے بھارت سے بہتر تعلقات کی آرزو لئے آگرہ جاپہنچے لیکن بی جے پی کے حکمرانوں نے اس آرزو کو آرزو ئے ناکام بنا دیا ۔
مان لیا جائے میاں نوازشریف نے نیک نیتی سے سوچا کہ تین جنگوں کے باوجود مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا اب دوستی کرکے دیکھ لیا جائے۔ تجارت ہندو کی کمزوری ہے خیرسگالی کے عملی مظاہرہ کی حکمت عملی بنایا گیا بے شک یہ اعلیٰ اخلاقی معیار ہے کہ بدخواہ سے مسلسل خیرسگالی کا اظہار کیا جائے تو بالآخر وہ مثبت رویہ اختیار کرلیتا ہے مگر جن کا فلسفہ زندگی ہی دھوکہ ہو اخلاقی قدریں ان کیلئے غیرمانوس چیز ہے جبکہ نوازشریف بھارت سے بہتر تعلقات کیلئے اس حد تک چلے گئے کہ ”مودی کا یار“ ان کا طعنہ بن گیا ۔بھارتی حکمرانوں کو خیرسگالی کے رویئے نہیں بلکہ کرکٹ ڈپلومیسی کے تحت جنرل ضیاالحق کے ”خاص الفاظ“ ہی سمجھ میں آتے ہیں اور ”براس ٹیک“ کا سارا منصوبہ غتربود ہوجاتا ہے۔ میاں نوازشریف کو جان لینا چاہئے ان کی نیک نیتی کی بھارت میں کوئی قدر نہیں کی گئی ان کیلئے بہتر ہے اپنی ہی پارٹی کی حکومت اور فوج کی پالیسیوں سے خود کو ہم آہنگ کرکے بقول خواجہ آصف ”گھر کو اِن آرڈر“ کرنے کی حکمت عملی کا حصہ بن جائیں۔
حرفِ آخر‘ ڈان لیکس کے تمام کردار سخت ترین محاسبہ سے نجات پاچکے ۔ سابق پی آئی او راﺅ تحسین ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہا ہے اول تو حکم ہی نہیں دیا گیا تھا دوسرے کسی سرکاری ملازم کیلئے خبر رکوانا ممکن ہی نہیں ہے۔
میڈیا اس وقت جتنا ”آزاد“ ہوچکا ہے اگر خبر رکوانے کی کوشش کی جاتی تو خبر تو نہ رکتی البتہ خبر میں یہ اضافہ ہوجاتا کہ ”راﺅ تحسین نے خبر رکوانے کی کوشش کی“ اس لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگ زیب ایک سرکاری ملازم کو ناکردہ گناہ کی سزا سے نجات دلائیں۔ راﺅ تحسین میرے دیرینہ کرم فرما یحییٰ صاحب اور محترمہ مہناز رفیع کے داماد ہیں یہ پورا خانوادہ محب وطن پاکستانی ہے پاکستان کی سلامتی کیخلاف کسی عمل میں ان کی شرکت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ان کی پاکستان سے دوستی کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔