جیت اور ہار منجانب اللہ ہے۔ انسان تو کوشش کرتا ہے، محنت کرتا ہے، دیانت داری کے ساتھ مسلسل محنت اور جدوجہد۔ نتیجہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ بے شک وہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
مادر ملت فاطمہ جناحؒ کے بعد جس خاتون نے اپنی ہمت، کوشش، بہادری کے ساتھ ناچاہتے ہوئے بھی تن تنہا سیاست میں منجھے ہوئے سیاست دان کا تاریخی کردار ادا کیا وہ محترمہ کلثوم نواز ہی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام میں نے اس لیے نہیں لیا کیونکہ وہ باقاعدہ سیاست دان تھیں جبکہ کلثوم نواز سیاسی نہیں گھریلو خاتون ہیں انہیں سیاست اور حکومت کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں محض اپنے مجازی خدا کے حکم پر انہوں نے سر تسلیم خم کیا۔ ایک تو حکم کی وجہ سے اور دوسرا ان کا ایمان ہے کہ ان کا مجازی خدا اس مملکت خداداد کو عظیم سے عظیم تر بنانا چاہتا ہے۔ ناقابل شکست بنانا چاہتا ہے۔ وہ یہاں کے کروڑوں افراد کی مسیحائی کرنا چاہتا ہے ان کے دُکھ درد اور مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے وہ ہر بچے کو تعلیم کی روشنی سے منور کرنا چاہتا ہے۔ سڑکوں، پلوں اور ریلوے کی پٹریوں کا جال بچھانا چاہتا ہے۔ تجارت اور کاروبار کو اوج تک پہنچانا چاہتا ہے۔ ایٹمی قوت کو سپر طاقت بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اقوام عالم کا راہنما اور مسیحا بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا میں نے ایک خواب تین بار دیکھا۔ اپنے استاد سے اس کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ کا خاندان سیاست میں آئے گا اور عالم اسلام کا کوئی بہت بڑا کام کرے گا۔ محترمہ کلثوم نواز بتاتی ہیں اس زمانے میں میں نے ان کی بات کو ہنسی میں اُڑا دیا کہ یہ نہیں ہو سکتا ہم سیاست میں نہیں آ سکتے۔ استاد نے کہا کہ یہ میں نہیں کہہ رہا یہ آپ کا خواب کہہ رہا ہے اور جب نواز شریف بطور وزیر خزانہ بنے تو وہ مٹھائی لے کر آئے اور کہا کہ آپ کے خواب کی پہلی سیڑھی یہ ہے۔ استاد نے ان سے کہا شاید اس وقت میں نہ رہوں لیکن جب یہ خواب پورا ہو گا تو اس وقت مجھے یاد کر لینا۔ میرا خیال ہے ان کے ذہن میں یہ راسخ ہو گیا ہے کہ ان کا مجازی خدا نہ صرف وطن عزیز بلکہ ملت اسلامیہ کی عزت اور سُرخروئی کا باعث ہے اور مستقبل میں مزید عزت اور سرخروئی کا باعث بنے گا۔
2000ءکے بعد محترمہ کلثوم نواز کے ساتھ مجھے برادرم سعد رفیق اور دیگر ساتھیوں کو خارزار سیاست میں سرگرم ہونے کا موقع ملا وہ ایک سخت دور تھا۔ میری ماں بیماری کی سختیوں کے خلاف برسر پیکار تھی انتہائی صبر اور خاموشی کے ساتھ لیکن اس کے اکلوتے بیٹے کو اس کا احساس تھا منہ کلیجے کو آتا۔ دوسری طرف بوڑھا باپ بھی زندگی کے آخری دنوں میں موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ محترمہ کلثوم نواز کو ہم ماڈل ٹا¶ن سے لیکر بھائی حماد کے ہاں آئے۔ وہ مرد حُر آمریت کے ساتھ سیدھا ٹکرا گیا تھا اور مضبوط فوجی حکومت نے اس کو نہ صرف پابند سلاسل کیا بلکہ اس کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور جب جسم کی قابل نہ رہا تو گھر پھینک گئے ہم حماد کے پاس پہنچے تو ہمارے ہمراہ محترمہ کلثوم نواز بھی تھیں اس کے بعد ہم نے خواجہ ریاض کے پرنٹنگ پریس کے باہر ایک زبردست احتجاج کیا اور منتشر ہو گئے اور یہ محترمہ کلثوم نواز کی احتجاجی سیاست کی ابتداءتھی مجھے فخر ہے میں اس وقت ان کے ہمراہ تھا۔
محترمہ کلثوم نواز گھریلو خاتون ہے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ اگر میاں صاحب کو اللہ نے پھر حکومت دی تو آپ کون سا عہدہ لیں گی۔ محترمہ کلثوم نواز نے کہا مجھے سیاست کا کوئی شوق نہیں یہ تو ایسے ہی ہے کہ آبیل مجھے مار ، میں سیاست میں نہیں آنا چاہتی ایک ”ایمرجنسی،، دور تھا۔ قائد محترم محمد نوازشریف استاد محترم شہبازشریف پابند سلاسل تھے۔ کلثوم نواز مجبوری میں باہر نکلی اور سیاست کے بڑے بڑے ستون بھی ان کی سیاست کے سامنے بے بس ہو گئے۔ کیوں نہ ہوتے وہ جمہوریت کے قائد کی زوجہ جو ہیں سیاست کے خارزار میں اتری تو نہیں تھیں لیکن اس کا خارزار سیاست محمد نوازشریف کے ہمراہ تو تھیں۔
شہر لاہور کے چند نمایاں افراد میاں شجاع الرحمن، میاں صلاح الدین، الحاج امین بٹ کے علاوہ ڈاکٹر حفیظ بھی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ڈاکٹر حفیظ اپنی انسان دوستی خدمت خلق، پروفیشنل مہارت، شرافت اور نجاہت کی وجہ سے منفرد شناخت رکھتے تھے۔ وہ حافظ قرآن بھی تھے ان کی بیٹی محترمہ کلثوم نواز ظاہر ہے اپنے خاندانی اوصاف کا مرقع ہیں پھر جس گھرانے میں بیاہی گئی ان کا تعارف الفاظ کا محتاج نہیں۔ محترمہ اردو ادب کی دلدادہ ہیں میر، غالب اور اقبال کی شاعری اور زبان کی امین.... قراة العین حیدر کی پرستار، احمد ندیم قاسمی کے نعتیہ کلام کی .... اور پروین شاکر کی شاعری کی گرویدہ.... نماز پنجگانہ کی پابند اور اللہ کے کلام قرآن حکیم کی قاری....
حلقہ 120 میں انتخاب میں ان کی نمائندگی دراصل قائد جمہوریت میاں محمد نوازشریف کی نمائندگی ہیں یہ دو قالب ایک جاں ہیں۔ اسمبلی میں پھر شیر اپنے دوسرے قالب کلثوم نواز کی صورت دھاڑے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کلثوم نواز اپنی قوم کے بچوں کو تنہا چھوڑ دے گی تو اس کی سوچ غلط ہے وہ اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں اگر جمہوریت کی خاطر میدان عمل میں نکل سکتی ہے تو 2017 ءمیں کیوں نہیں، چاہے اس کے لئے انہیں بیماری کے سخت ایام میں ہی یہ خدمت کیوں نہ سر انجام دینی پڑے۔ 120 کے حلقہ کے عوام اپنی ماں کو کبھی مایوس نہیں کریں گے۔ قوم کی ماں کا ان کے حلقہ سے انتخاب لڑنا ان کے لئے اعزاز اور سعادت کی جاتی ہے ہم قوم کے بیٹے جب حلقہ 120 میں نکلتے ہیں تو لوگوں کی محبوبیت، والہانہ وابستگی اور دیوانگی کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ یقین مانیں وہاں کسی بھی قسم کی انتخابی کمپین چلانے کی کوئی ضرورت نہیں کسی وزیر، ایم این اے، ایم پی اے کو آنے کی ضرورت نہیں نوازشریف یہ حلقہ 120 کے ہر فردکی صورت موجود ہے۔ کیا نوازشریف کو مسلم لیگ ن یا محترمہ کلثوم نواز کے ووٹ کے لئے قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ محترمہ کلثوم نواز کو صحت و تندرستی اور لمبی عمر عطا کرے۔ 120 کی نشست پر قوم کو پیشگی مبارکباد ہو۔