پیر توقیررمضان
ٍعام انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد پاکستان میں تبدیلی کا اعلان کر دیا گیا جس میں پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے پاکستان کے ہر ادارے کو تبدیل کرکے میرٹ کی بنیاد پر کام کرنے کے پابند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے ، پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور کئی حکومتیں گئیں ،ہر ادارہ میں کوئی کوئی تبدیلی تو آگئی مگر نہ بدل سکا تو وہ ہمارا پولیس کلچر ہے،آج تک کوئی پاکستان کے پولیس کلچر کو تبدیل نہ کرسکا، پاکستان کے موجودہ پولیس کلچر کا ذکر کیا جائے تو آج تک ناجانے کتنے بے قصور پولیس کی کاروائیوں کی بھینٹ چڑھ گئے ، محکمہ پولیس کے اہلکاروں نے اپنی کاروائی بنانے کے چکر میں کئی بے گناہ کو تشدد اور اذیتیں دیں کر گناہ گار بنا دیا ،جو کہ ہماری ملک وقوم کے لیے ایک بہت بڑالمحہ فکریہ ہے،پاکستان کے موجودہ پولیس کلچر کے مطابق یہ محکمہ بہت بری طرح تباہ ہوچکا ہے، کوئی مظلوم اگر کاروائی کے لیے تھانے آئے تو پولیس اسکی رپٹ درج کرلیتی ہے مگر جب یہ اصل مجرم تک پہنچنے میں ناکام ہوجائے تو یہی اہلکار کسی بے گناہ کو گرفتار کرکے اپنی کاروائی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں،اسی طرح اسی محکمہ میں اندر کھاتے ہی بڑے بڑے جرائم میں ملوث مجرامان کو لاکھوں روپے رشوت وصول کرکے بے گناہ کردیا جاتا ہے جس کے باعث آئے روز کرائم واقعات میں خطرناک حدتک اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اسی محکمہ کا بجٹ اور کام دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محکمہ کتنے پانی میں ہے۔ پولیس اہلکار کسی بھی بے گناہ کو گرفتار کرکے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جس کے باعث بے گناہ بھی پولیس تشدد سے تنگ اور مجبور ہو کر بڑے بڑے جرائم کا اقرارکرلیتے ہیں، یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اس محکمہ کا یہی کام ہے، آج پاکستان میں محکمہ پولیس کی بدنامی کی بڑی وجہ رشوت اور جھوٹی کاروائیاں ہیں۔ ضلع پاکپتن کے ایک مقامی تھانے میں تعینات ایس ایچ او کی گفتگو سنی تو سن کر دل بھر آیا جس میں ان صاحب نے اپنے منہ تسلیم کی تھی کہ پولیس نے بیلف کے چھاپے میں پر اپنے آپ کو بچانے کے لیے گرفتار طالبعلم کی گرفتاری کو چوری کے مقدمہ میں ظاہر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کئی مظلوم تھانہ کلچر سے تنگ آکر انصاف کے حصول کے لئے تھانوں کا دروازہ کٹھکٹانے کی بجائے ظلم کا شکار ہوکررہ جاتے ہیں جس کے باعث علاقے میں جرائم کی شرح میں بڑااضافہ ہوتا ہے۔کئی شہروں میں تو جرائم اس قدر بڑھ چکاہے کہ مقامی پولیس کی طرف سے جرائم کے بڑے بڑے واقعات کو چھپانے کے لیے ان کو کرائم ڈائری میں ظاہر ہی نہیں کیاجاتا۔قارئین اگر پاکستان کے پولیس کلچر تو تبدیل نہ کیا گیا تو آئے روز کئی بے گناہ اسی طرح پولیس کی کاروائیوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے اور یہ ادارے کے سربراہان نے اس ایشوءپر مجرمانہ غفلت برت رکھی ہے جو کہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ ہر ضلع میں اس محکمہ کی تحقیقات کروائی جائیں تو بڑے بڑے دبائے گئے کرائم کے واقعات سامنے آئیں گے۔آج پاکستان کے جوحالات میں اس میں اگر کوئی بڑا کرائم واقعہ ہوجائے تو راہ گیر پولیس کو اطلاع دینے سے دڑتے ہوئے وہاں سے بھاگتے ہیں کہ کہیں اس جرم کا ذمہ دار انہیں نہ ٹھہرا دیا جائے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار سے میری اپیل ہے کہ محکمہ پولیس کے موجودہ تھانے کلچر کو تبدیل کرکے تھانے میں آنیوالے سائلین کو بلاتفریق انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کلچر کو ختم کرکے اس ادارہ سے کرپٹ اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائیاں عمل میں لائی جائیں اور کسی بھی بے گناہ کے خلاف جھوٹی کاروائی کرنیوالے اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرکے حقیقی معائنوں میں اس ادارے کو عوام کا محافظ بنایا جائے تاکہ پولیس اور عوام کے فاصلے دور ہوسکیں۔