مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

Sep 17, 2018

 فرزانہ چودھری
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
یہ پکار اور التجا ہے ان مریضوں کی جن کی زندگی مسیحا کی غفلت سے ان کیلئے ایک بوجھ بن گئی۔ ایسے مریضوں کے لواحقین، جن کے پیارے پل بھر میں موت کے منہ میں چلے گئے، کے کرب کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ مریض اپنے درد کے درماںکیلئے ہسپتال کا رُخ کرتے ہیں لیکن جب شفا خانے مذبحہ خانوں میں تبدیل ہو جائیں، جب علاج بکنا شروع ہو جائے تو غریب مریض کدھر جائیں۔ یہ بڑے بڑے ہسپتال جو کہ اس غریب عوام کا آخری سہارا ہیں اگر اُن لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیے جائیں جو بظاہر اپنے آپ کو افلاطون ظاہر کریں لیکن اصلیت میں مسیحاء کے بھیس میں قاتل ہوں تو پھر خاموش رہنا ظلم ہے۔ مسیحائی کے نام پر جو کھیل جنرل ہسپتال کے یونٹ ون میں چل رہا ہے وہ قابلِ مذمت ہے۔ یاد رکھیے گا کہ درج ذیل کہانیاں چند ایک نہیں بلکہ درجنوں ایسی کہانیاں اس وارڈ کا معمول بن چکی ہیں۔ نوائے وقت کے صحت ایڈیشن میں چند ماہ قبل بھی اس وارڈ میں مریضوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز واقعات لکھے مگر افسوس اربابِ اختیار کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ نئی حکومت سے انصاف کی امید رکھتے ہوئے جنرل ہسپتال نیورو سرجری یونٹ ون کے کچھ مریضوں نے نوائے وقت سے رابطہ کیا تاکہ وہاں تسلسل کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز واقعات کو روکنے کیلئے وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کی توجہ مبذول کروا ئی جاسکے۔ ہم نے بھی حقیقت جاننے کیلئے جنرل ہسپتال نیورو سرجری یونٹ ون کے مریضوں سے بات چیت کی ۔ ایک بات زبان زدِ عام تھی کہ وہاں آنے والے مریضوں کو بہت خوارکیا جاتا ہے۔ یونٹ ون کے سر براہ پروفیسر تک مریضوں اور ان کے لواحقین کی رسائی ناممکن ہے۔ قارئین کی خدمت میں چند مریضوں کی کہانی ان کے لواحقین کی زبانی پیش خدمت ہے۔ جن کی پکار یہی ہے کہ
’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں‘‘
سیالکوٹ کی رہائشی مشعل ایک بہت ہی خوبصورت بچی تھی۔ ایف ایس سی کی طالبہ آنے والے دور کی مسیحا ہو سکتی تھی ۔ مشعل کے بھائی موسیٰ نے بتایا: ’’میری بہن نے پری میڈیکل سیکنڈ ایئر کے پیپر دیے تھے اور ابھی اس کارزلٹ بھی نہیں آیا کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ اس کو کبھی کبھی سر میں درد ہوتا تھا ایک دن وہ اچانک کھڑی کھڑی گر گئی۔ اس کو ہم جنرل ہسپتال لائے۔ ایم آر آئی سے دماغ میں رسولی کا پتہ چلا۔ہمیں ڈاکٹروں نے یہ نہیں بتایا کہ ٹیومر کس لیول کا ہے۔MRIکی رپورٹ کے بعد ہم سے ڈسکس نہیں کیا اور آپریشن کر دیا۔آپریشن کرنے کے تین دن بعد دوبارہ آپریشن کیا اور ہمیں یہ بتایا کہ رسولی دوبارہ بن رہی ہے۔ میری بہن کا آپریشن پروفیسر ڈاکٹر رضوان بٹ اور پروفیسر ڈاکٹر حبیب سلطان نے کیا تھا۔ ہم نے اپنی بہن کو پروفیسر ڈاکٹر حبیب سلطان کو پرائیویٹ دکھایا تھا وہ مریضہ کو آپریشن کیلئے جنرل ہسپتال لے آئے۔ آپریشن سے پہلے میری بہن بالکل ٹھیک تھی ۔ وہ کبھی کوئی چیز نہیں بھولتی تھی۔ آپریشن کے بعد مشعل کو ہوش ہی نہیں آیا۔ وہ9 دن وینٹی لیٹر پر رہی اور پھر اللہ کو پیاری ہو گئی۔‘‘ مشعل کے حوالے سے وارڈ کے ایک ڈاکٹر نے بتایا: ’’ آپریشن کے بعد مشعل کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ پہلے ورثاء کو تسلی دی جاتی رہی پھر جونیئر ڈاکٹر کو کہا گیا کہ وہ مریض کے ورثاء کو بتا دیں کہ وہ آپریشن سے ٹھیک نہیں ہو سکی۔ اُس کی رسولی خطرناک جگہ پرتھی وغیرہ وغیرہ اور اب مسلمان ہونے کے خاطر ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ اُس کی موت کا وقت مقرر تھا آپ صبر اور دعا کریں کہ اللہ اس کو جنت عطا فرمائے۔‘‘
کچھ ڈاکٹروں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا: ’’ نیورو سرجری یونٹ ون میں تقریباً ایک سال سے جتنے آپریشن رسولی کے کیے گئے ہیں اُن میں اکثر مریضوں کی موت ہو گئی، یعنی کامیاب آپریشن کی نسبت ناکام آپریشن کی شرح بہت زیادہ ہے۔ پچھلے سات ماہ میں نیورو سرجری کے مریضوں کی موت کی لسٹ کے مطابق17 نومبر2017 ء سے لے کر مئی 2018 ء تک یونٹ ون میں 206 اور یونٹ ٹو میں79 مریضوں کی اموات ہوئیں۔کئی مریض ایسے بھی ہیں جن کا بظاہر لگتا ہے کہ آپریشن کامیاب ہواہے مگر بعد میں سی ٹی سکین کرانے سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کی رسولی توپوری نکالی نہیں گئی۔ صرف 20 سے25 فیصد رسولی نکالی گئی ہے۔ یونٹ کے سر براہ پروفیسر صاحب مریض کو پہلے ہی کہہ دیتے ہیں کہ اگر تمہاری رسولی کو پورا نکالا گیا تو تمہاری موت واقع ہو سکتی ہے۔جونیئر ڈاکٹر کو بھی10 سے20 فیصد رسولی نکالنے کا درس دیا جاتا ہے۔ ان کو وقتاً فوقتاً یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ آئی سی یو کا مریض بچ ہی نہیں سکتا آج نہیں تو کل اس نے مر جانا ہے اس کے تمام ٹیکے بند کر دو، ناک کی نالی سے ہلکی دوا دو تاکہ جلدی فارغ ہو جائے۔ دماغ میں پانی کے مریض شنٹ ڈالنے سے ٹھیک ہو سکتے ہیں مگر اُن کو کئی کئی دن وارڈ میں رکھا جاتا ہے اور شنٹ ڈالنے کی بجائے مریض کی کمر سے پانی نکالتے رہتے ہیں۔ مریضوں کے دماغ کے آپریشن کے بعد اُن کے سر کی ہڈی بھی نکال دی جاتی ہے ۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ دماغ کی رسولی کا علاج تو ہونا ہی نہیں ہے اسلئے کوئی بھی جونیئر آپریشن کر دے کافی ہے۔ اپنے منظورِ نظر ڈاکٹرز کو بڑے بڑے آپریشن سکھانے کے بہانے مریضوں کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ درددل رکھنے والے ڈاکٹرز روزانہ مریضوں کے ساتھ موت کا کھیل دیکھ کر شدید ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔ ایک سینئر ڈاکٹر جو کہ سینئر رجسٹرار کی سیٹ پر کام کر رہا ہے اُس کو سزا کے طور پر وارڈ سے نکال دیا گیا کیونکہ اُس نے راؤنڈ کے دوران پروفیسر صاحب سے سوال کرنے کی جرأت کی تھی۔ وہ وارڈ جس میں علاج کیلئے مریضوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں، اب مریضوں کے خوف اور ڈر کی وجہ سے خالی نظر آتے ہیں۔ وارڈ کے بستر کو بھرنے کیلئے ایکسیڈنٹ کے مریضوں کو رکھا جاتا ہے تاکہ ایسا لگے کہ وارڈ بھرا ہوا ہے اور جگہ نہیں ہے۔ اکثر سیریس مریضوں کوداخل ہی نہیں کیا جاتا ۔‘‘
مریض عرفان حمید کے والد عبدالحمید نے بتایا:’’ 20 جنوری کو میرے بیٹے کے سر میں شدید درد ہوا۔ ہماری قسمت خراب کہ ہم جنرل ہسپتال میں اسے لے آئے اورہمارا پروفیسر رضوان بٹ سے واسطہ پڑ گیا۔ وہ یونٹ ون کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے میرے بیٹے کی خود شنٹنگ کرنے کی بجائے اپنے ایم او سے کروائی اور دوران آپریشن میرے بیٹے کے دماغ کی وینPunch ہو گئی ۔ میرا بیٹا وینٹی لیٹر پر چلا گیا اور موت کو چھو کر واپس آیا ہے۔ سات ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے وہ کومے میں ہے۔ میں پروفیسر رضوان بٹ سے اتفاق ہسپتال میں ملا اور ان سے کہا ڈاکٹر صاحب آپ میرے بیٹے کا علاج پرائیویٹ کر دیں۔ انہوں نے کہا اچھا میں دیکھ لیتا ہوں۔ میں نے پھر ان سے کہا تو کہنے لگے ہم نے اس کا جوعلاج کر دیا ہے وہی کافی ہے۔ میرے علم یہ بات آئی ہے کہ پروفیسر صاحب کا سفارشی پچھلی حکمران خاندان کے ایک فردہے۔ اسلئے ان کو کسی بات کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ مجھے اسی یونٹ کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ہم نے پروفیسر کو آپکے بیٹے کے آپریشن کے تیسرے دن کہا تھا کہ اس کا شنٹ کام نہیں کر رہا۔ اس کے دماغ میں دوبارہ سے پانی بھر رہا ہے اس کو برین ہیمبرج کا دوبارہ خطرہ ہے توپروفیسر نے یہ کہا:’’جتنا علاج کر دیا ہے ٹھیک ہے۔ اس کی قسمت میںبچنا ہے تو بچ جائے گا۔ ویسے مریض ابھی تک زندہ تو ہے۔‘‘ پروفیسر صاحب نے35 دن کے بعد ہمیں مریض کو ادویات کھلانے کو کہا اور مریض کو ڈسچارج کر دیا۔ میرے بیٹے کے دماغ میں رسولی ہے۔ جنرل ہپتال کے ڈاکٹر نے اس کی رسولی نہیں نکالی اور شنٹ ڈال دیا۔ ہم نے وہ رسولی پرائیویٹ نیورو سرجن سے نکلوائی ہے ۔ میں نے K.E کے بورڈ کے سامنے بھی بیٹے کی تمام رپورٹ پیش کیں ۔ انہوں نے بتایا کہ جب مریض کوپہلا شنٹ ڈالا گیا تو دوران آپریشن بے احتیاطی ہوئی جس سے اس کی ایک وین Punch ہو گئی جس سے بلیڈنگ ہوئی اور یہ تب سے اب تک وہاں سے ریکور نہیں ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کا ویژن چلا جائے، اس کے سننے اور بولنے کی طاقت نہ رہے۔ صرف زندہ لاش آپ کے سامنے پڑی ہے ۔ میں اپنے آنکھوں دیکھا واقعہ بتا رہا ہوں۔ نیورو یونٹ ون کی وارڈ میںمیرے بیٹے کے بیڈ سے اگلے بیڈ پر ایک بچہ تھا۔ اس کا آدھا دماغ ہی پروفیسر صاحب نے نکال دیاتھا۔ اس کے دماغ کی ہڈی بھی نکال دی۔ اس بچے کی ماں بیوہ تھی اس کو پروفیسر نے کہا آپ یہاں سے اس کو لے جائو اس کی جتنے سانس ہیں وہ لے لے۔ میں نے اس بیوہ عورت کی مدد کی۔ میں نے پرائیویٹ ڈاکٹر سے اس بچے کی شنٹنگ کروائی، وہ اب کچھ بہتر ہے۔ وہ بچہ ہمارے مریض سے ایک ماہ پہلے سے داخل تھا۔ جنرل ہسپتال کے نیورو یونٹ ون میں ایک دو موت روزانہ ہو رہی ہے یہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میں نے جو کچھ آپ کو بتایا ہے میں ہر فورم پر بتانے کو تیار ہوں محض اسلئے کہ مریضوں کو بے موت مرنے سے بچانے کیلئے اربابِ اختیار کچھ تو کریں۔ ‘‘
47 سالہ بلقیس نے بتایا: ’’میرا تعلق ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں جلہن سے ہے۔ مجھے دو ٹانگوں اور ایک ہاتھ سے معذور ہوئے تین سال ہوچکے ہیں۔ میرے سر میں درد تھا میں نے گوجرانولہ میںپرائیویٹ ڈاکٹر کو دکھایا ،اس نے ایم آر آئی کروایا ۔ اس میں چھوٹی سی رسولی ظاہر ہوئی۔ ڈاکٹر نے کہا اس کا چھوٹا سا آپریشن ہوگا آپ اس کو نکلوا لیں تو بہتر ہے۔ میں سروسز ہسپتال گئی وہاں پر نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر رضوان بٹ کو اپنی تکلیف کے بارے میں بتایا اور ایک سال پہلے کی گئی ایم آر آئی کی رپورٹ دکھائی ۔ انہوں نے کہا آپریشن ہوگا۔ میں نے پروفیسر صاحب سے کہا اگر آپریشن کرانے سے کوئی نقصان ہوسکتا ہے تو بتا دیں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اگر نقصان ہوسکتا ہے تو میں آپریشن نہیں کروائوں گی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا بالکل نقصان نہیں ہوگا آپ آپریشن کرائیں۔ آپ آپریشن کروائیں گئی تو نقصان نہیں ہوگا اگر سال اور گزر گیا رسولی بڑی ہوجائے گی اور آپ کی عمر بھی زیادہ ہوجائے گی تو پھر اس کا نقصان ہوسکتا ہے۔ میں ہسپتال اپنے پائوں پر چل کر گئی۔ آپریشن کے بعد جب مجھے ہوش آیا تو میں بہت روئی کیونکہ میری دو ٹانگیں اور بایاں بازو بالکل کام نہیں کر رہاتھا ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا آپ نے میرے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ میں نے لاہور، گوجرانوالہ کے کئی نیوروسرجنز کو دکھایا ۔ ایم آر آئی کروائی، سب نے کہا صرف دو سینٹی میٹر کی سادہ رسولی سے اس طرح کا رزلٹ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میں بے حد بد قسمت ہوں کہ ان پروفیسر سے آپریشن کروالیا اور معذور ہوگئی ہوں۔ ڈاکٹر ولید نے کہا جب رسولی نکالی تودوران آپریشن آپ کی ٹانگوں کے پٹھوں کی وین کٹ گئی۔ ‘‘
زین نے بتایا: ’’میری والدہ کو برین ٹیومر تھا۔ ہم جنرل ہسپتال ان کو لے کر آئے۔7مارچ 2017ء کو نیوروسرجن پروفیسر محمد انور چودھری نے ان کا آپریشن کیا اور وہ آپریشن کامیاب ہوا۔ تقریباً چھ ماہ قبل میری والدہ کے سر میں درد ہوا اور ان کو دھندلا نظر آنے لگا، میں ان کو لے کر جنرل ہسپتال ایمرجنسی میں گیا۔ انہوں نے ایک ہفتہ رکھا اورچھٹی دے دی۔ پروفیسر رضوان بٹ نے ان کا شنٹ Reviseکیا، مگر میری والدہ کی طبیعت ٹھیک نہ ہوئی۔ ہم نے سیالکوٹ میں ڈاکٹر راجہ مسعود کو پرائیویٹ دکھایا ۔انہوں نے MRIکرائی اور بتایا کہ ان کے شنٹ کی ایک سائیڈ کام کر رہی اور دوسری سائیڈ بلاک ہے۔ آپریشن کے دوران ان کی شریان پھٹ گئی ہے جس کی وجہ سے شنٹ کی ایک سائیڈ بلاک ہو گئی ہے۔ میں والدہ کو لے کر دوبارہ جنرل ہسپتال آیا اور ان کو MRI دکھائی اور بتایا کہ ان کا تو ایک سائیڈ کا شنٹ بلاک ہے اس پر ڈاکٹر حضرات نے کہا بیڈ نہیں ہے ابھی ان کو گھر لے جائو۔ میری والدہ کا آپریشن کرکے شنٹ بلاک کردیا اب ان کا علاج بھی نہیں کر رہے۔ میں ہر دوسرے دن ان کو لے کر جنرل ہسپتال آتا ہوں اور درد کا انجکشن لگوا تا ہوں۔ پروفیسر رضوان بٹ سے ہمیں ملنے ہی نہیں دیا جاتا۔ ان کی یونٹ کے وارڈ کے مریضوں اور لواحقین بھی یہی شکایت کرتے ہیں۔ جب پروفیسر محمد انور چودھری جنرل ہسپتال میں تھے تو وہ ہر مریض کا علاج توجہ سے کرتے تھے۔ مریض اور ان کے لواحقین براہ راست ان کے کمرے میں جا کر ملتے تھے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ وہ تو غریب مریضوں پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ ‘‘
مریض حمزہ کی والدہ صاعقہ احسان نے بتایا: ’’ میرے بیٹے کے سینے میں درد ہوا ، ہم اسے جنرل ہسپتال ایمرجنسی میں لے گئے۔ میرا بیٹا بالکل ٹھیک تھا۔ اس کا ایکسرے کیا اور ڈاکٹر حماد نے اس کے ناک میں نالی لگائی۔ وہ ایمرجنسی وارڈ نمبر 11 میں داخل تھا ۔ میں اسے سنتا بولتا چھوڑ کر گھر آئی جب اگلی صبح گئی تو حمزہ بول نہیں رہا تھا، میں نے پوچھا اس کو کیا ہوا یہ بول کیوں نہیں رہا۔ اس کی حالت بہت خراب تھی ۔ سانس بہت مشکل لے رہا تھا ۔ پھر اسے میڈیکل وارڈ ون میں شفٹ کردیا گیا۔پندرہ بیس دن وہاں رہا۔ وہاں ایک لیڈی ڈاکٹر آئیں انہوں نے کہا اس مریض کا تو برین کا مسئلہ ہے اس کو یہاں کیوں رکھا ہے اس کو نیورو وارڈ میں بھیجیں۔ جب نیورو وارڈ ون میں گئے تو وہاں پر ڈاکٹر نے کہا مریض کی کمر کا پانی نکال کردیکھیں گے کیا مسئلہ ہے۔ اس کے بعد کہا اس کے دماغ میں پانی ہے شنٹ ڈالنا ہوگا۔ ہم نے ان کو 26ہزار روپے کا شنٹ خرید کر دیا۔ جب سے شنٹ ڈالا ہے میرا بیٹا زندہ لاش بن گیا ہے۔ میں نے بیٹے کے علاج کیلئے اپنا مکان فروخت کردیا، سرکاری ہسپتال میں علاج پر تقریباً 10لاکھ روپے لگا چکی ہوں مگر میرا بیٹا ٹھیک نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں نے میرا بیٹا معذور کردیا ہے۔اب وہ نہ بولتا ہے، نہ سنتا، نہ چلتا اور نہ کھاتا ہے۔ چھ سات ماہ سے نالی کے ذریعے دودھ لے رہا ہے۔ میں نے جنرل ہسپتال کے ایم ایس سے بھی بات کی میرے بیٹے کی ایسی حالت ہو گئی تو انہوں نے کہا آپ کے بیٹے کا آپریشن غلط ہاتھوں سے ہو گیا ہے۔ میں ہسپتال میں ڈاکٹروں کے سامنے قسم کھا کر آئی ہوں، اللہ نہ کرے میرے بیٹے کو کچھ ہو گیا۔ میں اس کو جنرل ہسپتال لے جا کر خود کو وہاں ختم کر لوں گی۔ میرے بیٹے کو اگر وقت پر شنٹ ڈال دیا جاتا تو آج وہ ٹھیک ہوتا۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ اس نا اہل ڈاکٹر کی جگہ تجربہ کار ڈاکٹر کو ذمہ داری سونپ کر مریضوں کی زندگیوں کو بچایا جائے۔‘‘
ان تمام مریضوں کے لواحقین نے آخر میں کہا: ہماری ارباب اختیار وزیراعظم پاکستان ، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد سے درخواست ہے کہ خدا را نیورو سرجری کے شعبہ یونٹ ون کونا اہل ڈاکٹر سے نجات دلائی جائے ۔ ایک انکوائری کی جائے جس میں ہیلتھ کیئرکمیشن کے اراکین اس بات کا تجزیہ کریں کہ پروفیسر رضوان بٹ کے زیر نگرانی کتنے آپریشن کیے گئے۔کتنے مریضوں کی موت ہوئی اور جوزندہ ہیں ان کی رسولی کا آپریشن انٹرنیشنل طریقہ کار کے مطابق ہوا اور کتنے مریضوں کی کھوپڑی کی ہڈی واپس نہ رکھی جا سکی۔
٭٭٭٭٭
box
نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر نذیر احمد نے بتایا،’’دماغ میں سادہ ٹیومر کو مکمل طور پر نکالنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ دماغ کے کس حصہ میں ہے اور اس کا سائز کتنا بڑا ہے۔ اگر سادہ ٹیومر دماغ کے نیچے والے حصے، برین سٹیم،میں ہو تو سادہ ٹیومر مکمل نہیں نکالے جا سکتے ہیں۔ کینسر ٹیومر پورا نکالنے کی کوشش تو ہوتی ہے لیکن اس کے پیچھے جڑیں ہوتی ہیں۔ وہ نظر نہیں آتیں۔ ا سے زیادہ سے زیادہ نکال لیتے ہیں۔ آپریشن کرنے سے پہلے تقریباً60 فیصد تک MRI کے ذریعے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کونسا ٹیومر ہے۔ نوجوان مریض کا سادہ ٹیومر سارا نکال دیا جائے تو دوبارہ نہیں بنتا۔ پانچ سے دس فیصد مریضوں میں سادہ ٹیومر دوبارہ ہو سکتا ہے۔ 90 فیصد مریضوں کی زندگیSafe ہو جاتی ہے۔ جن مریضوں کے کینسر ٹیومر کا آپریشن کیا جاتا ہے اس کا زیادہ حصہ نکال لیا جاتا اور باقی ٹیومر کو شعاعوں کے ذریعے جلایا جاتا ہے اور ایسے مریضوں کی دو تین سال بعد رسولی دوبارہ بن جاتی ہے۔ زندگی اور موت کا اختیار تو اللہ کے پاس ہے۔ کینسر رسولی کی سرجری کے بعد ریڈیو تھراپی‘ کیموتھراپی کی جاتی ہے۔ اگر دماغ سے ٹیومر نکل گیا اور دماغ پر کوئی دبائو نہیں ہے تو ہڈی کو دوبارہ لگا دینا چاہئے۔
نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر خالد محمودجنرل ہسپتال نیورویونٹ ٹو کے سربراہ ہیںانہوں نے بتایا:’’دماغ میں سادہ ٹیومر جو جڑوں کے بغیر ہو ہو تو اس کو پورا نکالنا چاہئے۔ کینسر ٹیومرکو پورا نہیں نکالا جا سکتا۔ اس ٹیومر کے آپریشن کے بعد کیموتھراپی کرانی پڑتی ہے۔ سادہ ٹیومر ہو یا کینسر والا ٹیومر اچھے رزلٹ لینے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ نکالا جائے۔ ٹیومر کتنا نکالیں اس کا انحصار اس پربھی کہ وہ کس جگہ پر ہے دوسرا سرجن کتنا تجربہ کار ہے۔ سرجن جتنا تجربہ کار ہوگا‘ وہ اتنا زیادہ ٹیومر نکال سکتا ہے۔ منہ میں درد جسے Tri Geminal Neuralgia کہتے ہیں یہ چہرے،رخسار اور جبڑے پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا نیورو سرجری میں بہت کامیاب علاج ہے۔ آپریشن سے مریض مکمل ٹھیک ہو جاتا ہے اور دوائیاں بھی چھوٹ جاتی ہیں۔ اگر دوائیوں کے سائیڈ افیکٹس شروع ہو جائیں یا دوائیوں کا اثر ختم ہو جائے، جوکہ کچھ سالوں بعد ہو جاتا ہے، تو پھر کھوپڑی کھول کرآپریشن کرنا چاہیے ۔ سرجری، مائیکرو سکوپک یا اینڈو سکوپک‘ کے ذریعے خون کی نالیاں جو اعصاب کے ساتھ ٹچ کرتی ہیں ان کو علیحدہ کیا جاتا ہے ۔ دوسرا طریقہ مریض کے رخسار کے نیچے والے حصے پے ایک سوئی ڈال کر تے ہیں اور اس کوایکسرے میں دیکھتے ہیں ۔ اس کیلئے مہارت بہت ضروری ہے۔‘‘

مزیدخبریں