ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس: بدنیتی سے رپورٹ بنائی،آپ پر بھروسہ کر کے سونپی ، آپ نے ہمارا اعتماد توڑا:چیف جسٹس

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ مسترد کردی اور سینیئر پولیس افسر خالد لک کو ڈی پی پاکپتن تبادلے کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیدیا،وزیرعلی پنجاب عثمان بزدار، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور احسن اقبال جمیل کو پیش ہونے کا حکم دیا، چیف جسٹس نے سابق آئی جی پنجاب کلیم امام پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ نے آپ پر اعتماد کر کے رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آپ نے بدنیتی سے رپورٹ بنائی، رپورٹ میں سب اچھا کہا گیا، ہم نے معاملے کے سیاسی پہلو کی تحقیقات آپ پر بھروسہ کر کے سونپی لیکن آپ نے ہمارا اعتماد توڑا۔آپ نے کیا تحقیقات کی، آر پی او اور ڈی پی او کے بیانات آپس میں نہیں ملتے۔ امام آپ کو موقع دیا تھا لیکن آپ نے گنوا دیا، کام ایمانداری سے کیا یا نہیں یہ تعین عدالت کریے گی۔ اپنے دفاع کے لیے وکیل بھی کرلیں۔ پیر کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سابق ڈی پی پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔چیف جسٹس پاکستان نے سابق آئی جی پنجاب کلیم امام پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے ان کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ مسترد کردی۔چیف جسٹس نے سینیئر پولیس افسر خالد لک کو ڈی پی پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا اور وزیرعلی پنجاب عثمان بزدار، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور احسن اقبال جمیل کو پیش ہونے کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل پولیس کلیم امام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ پر اعتماد کر کے رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آپ نے بدنیتی سے رپورٹ بنائی۔ ہم نے لکھ دیا تو آپ پولیس میں نہیں رہیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ میں سب اچھا کہا گیا، ہم نے معاملے کے سیاسی پہلو کی تحقیقات آپ پر بھروسہ کر کے سونپی لیکن آپ نے ہمارا اعتماد توڑا۔ جس پر آئی جی کلیم امام نے کہا کہ عدالت نے سیاسی پہلو کی تحقیقات سونپی تھی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے کیا تحقیقات کی، آر پی او اور ڈی پی او کے بیانات آپس میں نہیں ملتے۔ آپ نے پولیس افسران کو وزیراعلی پنجاب سے ملنے سے کیوں نہیں روکا۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ جب مجھے پتہ چلا تو میں اسلام آباد میں تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اسلام آباد میں تھے کسی دوسرے ملک میں تو نہیں تھے۔ وزیراعلی عثمان بزدار نے اپنے سامنے پولیس افسران کو زلیل کروایا۔ بلوائیں وزیر اعلی پنجاب کو۔چیف جسٹس نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کلیم امام آپ کو موقع دیا تھا لیکن آپ نے گنوا دیا، کام ایمانداری سے کیا یا نہیں یہ تعین عدالت کریے گی، اپنے دفاع کے لیے وکیل بھی کرلیں۔یاد رہے کہ سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی مداخلت انکوائری کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دی گئی اور کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا۔

ای پیپر دی نیشن