علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا غیر سیاسی یوٹرن

میرے لیے یہ اعلان غیر متوقع نہیں تھا۔ مجھے مطمئن دیکھ کر جھورے جہاز کوحیرت ہوئی وہ کہنے لگا، وڑائچ صاحب آپ نے جس شخصیت کے ساتھ انقلابی ، سیاسی اور سماجی مشن پر کام کیا اس شخص کے سیاسی طور پریوں پردہ نشین ہو جانے پر آپ کسی حیرت کا اظہار نہیں کر رہے؟ تو میں نے یہ شعر پڑھ کر جواب دیا:
جو ڈوبنا بھی ہے تو اس سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ چلے
قارئین! 1989ء میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنی سیاسی جدوجہد کا اعلان ’’پاکستان عوامی تحریک ‘‘بنا کر کیا، اس سے پہلے ڈاکٹر صاحب منہاج القرآن تحریک کا آغاز کر چکے تھے، یہ خالصتاً مذہبی تحریک تھی اس پلیٹ فارم سے انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر دنیا بھر میں اپنا بلندمقام بنایا مگر جو تشنگی انکے دل اور دماغ میں تھی اور جو انقلاب اور اقتدار کا تصور ان کے نظریئے میں پنہاں تھا ،اس کیلئے منہاج القرآن کا یہ بہت وسیع پلیٹ فارم بھی کم پڑتا تھا۔ نوازشریف کے والد میاں شریف کی اتفاق مسجد سے اپنی نیم مذہبی سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ یہی شریف فیملی ان کی دشمن بن جائیگی۔محبت اور عداوت کے اس کھیل میں ایک وہ بھی وقت آیا کہ علامہ صاحب شریف فیملی کیساتھ عمرہ کرنے گئے ۔اس دورانِ علیل ہو ئے تو میاں نوازشریف نے انکو کندھوں پر اٹھا کر مناسک عمرہ پورے کیے اور پھر شریف خاندان میں بچوں کی شادیاں تک ڈاکٹر صاحب کی رائے اور مشورے سے قرار پاتی تھیں۔ اور پھر اقتدار اور سیاسی بالادستی کیلئے پیرمرید آمنے سامنے آگئے؟ میں نے ڈاکٹر صاحب کی تصانیف کا مطالعہ کیا، مجھے انکی قربت میں بھی رہنے کا موقع ملا ۔ تمام تر ملاقاتوں میں یہ بات آج تک نہیں کھل سکی کہ انکی شریف فیملی سے چپقلش کی وجہ کیا بنی مگر ایک بات واضح ہے کہ یہ سب اقتدار کا کھیل تھا۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ پیر اور مرید کا تعلق تو کیا بیٹے نے اقتدار کیلئے باپ کی آنکھیں تک نکلوائیں۔ بھائیوں نے بھائیوں کو پابندِ سلاسل اور قتل تک کیا۔ علامہ طاہر القادری نے دنیا کے پانچ براعظموں کے نوے ممالک میں منہاج القرآن کے دینی مراکز قائم کیے۔ کئی یورپی ممالک میں ان مراکز کی تعداد دس سے بھی زیادہ ہے او ران سینکڑوں مراکز کی اگر صرف پراپرٹی کا تخمینہ ڈالرز میں لگایاجائے تو تقریباًپانچ سو ملین امریکی ڈالر کی یہ پراپرٹی اور اسکے علاوہ سینکڑوں ارب روپے کی دیگر جائیدادیں ہیں۔ اسکے علاوہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں کا تعلیمی نیٹ ورک بہ احسن کام کر رہا ہے۔صرف ڈاکٹر صاحب کی تصانیف اور کتب کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے جبکہ مختلف پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور براڈکاسٹنگ گروپس کیساتھ الحاق و اشتراک اس بات کا غماز ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تحریک کو علمی جِلا بخشی۔خصوصاً جامعتہ الاظہر(مصر) اور دیگر اسلامی یونیورسٹیوں میں منہاج القرآن کے فارغ التحصیل طلبا کو پی ایچ ڈی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے بھجوایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی کسی بھی بڑی اسلامی تحریک یا تنظیم میں منہاج القرآن کے پی ایچ ڈی دانشوروں جیسی کھیپ میسر نہیں۔ قارئین! سانحہ ماڈل ٹائون 2014ء دراصل اس خوف کا انجام تھا جو حکمران طبقے کو ڈاکٹر طاہر القادری سے لاحق تھا کیونکہ 2011ء کے اسلام آباد دھرنے سے انہوں نے ایوانِ اقتدار کی قوتوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ اقتدار کے کوریڈور میں ان کو بھی مناسب جگہ دی جائے۔ سانحہ ماڈل ٹائون سے کچھ دن پہلے ہی میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اکٹھے کام کرنے کا عہدوپیماں کر چکا تھا تاہم سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد میں اپنی صحت کی بنا پر پاکستان نہ آ سکتا تھا، پھر علامہ صاحب جیسے ہی لاہور پہنچے انہیں زمینی قوتوں نے ہائی جیک کر لیا اور اسلام آباد دھرنے اور پھر اسکے انجام کی صورت میں جو کچھ ہوا وہ سامنے ہے۔ اس دوران میں اپنی ذمہ داریاں اور مشاورت کے فرائض ادا کرتا رہا۔ ایک جیتی ہوئی جنگ ہارنے کے بعد جب علامہ صاحب واپس کینیڈا تشریف لائے تو مجھے انکی ذہنی تیاری موٹیویشن اور مورال کی بحالی میں تقریباً دو سال لگے۔اس عرصے میں پاکستان کی ڈگمگاتی سیاست مزید ابتر ہو چکی تھی۔ میرا یہ نظریہ تھاکہ ہم انقلاب کے قریب تر ہیں۔ میں نے ڈاکٹرصاحب کی پوری میڈیا ٹیم اور رفقا کو یہ سخت پیغام دیا کہ اگر ڈاکٹر صاحب کو کوئی بیماری ہے بھی تو اس کا ذکر میڈیا اور عوام میں نہ کیا جائے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ عوام اپنے ہیرو کو مضبوط اور ناقابل شکست دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ جون 2016ء میں تمام تر زمینی حقائق سے سمجھوتہ اور مشاورت کے بعد ہم پاکستان پہنچے ، سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کو انصاف دلانے کی غرض سے تحریک چلانے کا بھرپور اعلان ہوا۔ اس دوران جو کچھ ہوا اس کیلئے اس کالم کی گنجائش کم پڑتی ہے۔ِ زیرطبع کتاب میں حقائق منظرِ عام پر لائوں گا۔ اس دوران بھی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے شدید مایوسی کے عالم میں چند ایک دفعہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ عوامی تحریک کو توڑ کر اور سیاست سے ترکِ تعلق کرکے خالصتاً مذہبی بنیادوں پر تحریک جاری رکھی جائے لیکن میری شدید تر مخالفت کی وجہ سے اس وقت اس فیصلے کو مؤخر کر دیا گیا۔ میں نے سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کو قصاص اور دیت دلوانے کیلئے اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف سے کئی خفیہ ملاقاتیں اور مذاکرات کیے۔ اس بات میں بھی حقیقت ہے کہ حسین نواز، میاں شہبازشریف اور میاں نوازشریف اس بات پر آمادہ تھے کہ سیاسی مخاصمت نکال کر سانحہ ماڈل ٹائون کے مجرمین کو بے نقاب کرنا چاہیے اور خود ڈاکٹر صاحب کی بھی اس دوران اسی سیاسی دھڑے کے متعلقہ لوگوں سے بے شمار سیاسی خفیہ مذاکرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹائون کا انتقامی نہیں بلکہ تسلی بخش سیاسی حل اور انصاف چاہتے تھے مگر کچھ قوتیں انہیں شریف فیملی کیخلاف بطور تُرپ کے پتاّاستعمال کرنا چاہتی تھیں۔ منہاج القرآن کے لاکھوں کارکنان کو یہ باور کروانا مشکل تھا کہ شاید شریف فیملی ماڈل ٹائون کے گناہِ عظیم میں اس طرح شامل نہیں اور یہ کہ شاید کچھ اور مذہبی اور سیاسی قوتیں شریف فیملی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان چلنے والے اس تنازع کو اپنی سیاسی بقا سمجھتے ہیں۔علامہ صاحب نے جس سیاسی یوٹرن کا اب اعلان کیا ہے یہ شاید سال بھر پہلے ہو جاتا تو گنہگاروں کو سزا اور متاثرین کو جزا بھی ملتی ،اب عوامی تحریک کے بچے کھچے عہدیداران اور کارکنان ڈاکٹر صاحب کے بغیر شاید ایک این جی او سے بھی زیادہ اثر نہیں رکھتے مگر مضبوط بنیادوں پر قائم منہاج القرآن کا ادارہ علم و فضل کے طلبگاروں کیلئے مشعلِ راہ بنا رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کی مذہبی اور علمی خدمات کا اعتراف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔ میری تمام تر ہمدردیاں سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین اور منہاج القرآن کے ساتھ ہیں۔

ای پیپر دی نیشن