خبر خبر ہوتی ہے۔ خبر منحوس بھی ہوتی ہے اور خوشی سے بھرپور بھی…لیکن یہاں تو ساری خبروں پر نحوست کے پنجے گڑھے نظر آتے ہیں۔ آپ اخبار لیں یا کوئی نیوز بلیٹن سن لیں۔ سوائے نحوست زدہ خبروں کے کوئی اچھی خبر سننے یا دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اب تو سوچنا پڑتا ہے کہ کائنات سے خطرناک، زہریلی اور د ردناک کون ہے، انسان یا درندہ؟ مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر سر جھکا کر کہنا پڑے گا کہ انسان ہی کائنات کی سب سے خوفناک مخلوق ہے اور انسان نے انسان کا جینا مرنا محال کر رکھا ہے۔ جتنا خطرہ انسان کو انسان سے ہے اتنا خطرہ انسان کو زہریلے جانوروں سے نہیں ہے۔ اس کا اندازہ آپ رابی پیرزادہ کے شوق سے لگا سکتے ہیں۔ رابی پیرزادہ نے سانپ ریچھ اور کئی خطرناک جانور پال رکھے ہیں۔ رابی پیرزادہ کو کبھی جانوروں نے نقصان نہیں پہنچایا مگر آپ رابی پیرزادہ سے پوچھیں کہ کبھی کسی انسان سے انہیں نقصان پہنچا ہے تو یقیناً اس کا جواب ہاں میں ہو گا۔ اگر آپ غور کریں تو ہم سارے انسان ایک دوسرے سے زخم خوردہ ہیں۔ ایک دوسرے کو زک پہنچاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو رُلاتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے اذیت، دُکھ اور غم کا سبب بنتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنی خوفناک اور درد ناک خبریں ہماری سماعتوں اور بصارتوں سے نہ ٹکراتیں۔ میں صرف آج کے دن کی چند خبروں کا احاطہ کرونگی جس میں عبرت کے ہزار پہلو پوشیدہ ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ ہم کتنی دُکھی، اذیت پسند، ناخلف قوم ہیں۔ ہمارے اندر سانپ اور بچھو رینگ رہے ہیں۔ ہر انسان زیادہ سے زیادہ 80 سال جی لیتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو ویسے بھی اوسطاً عمر 65 سال ہے جو لوگ ستر پچھتر برس تک جی لیتے ہیں وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں اگرچہ جان لیوا بیماریاں ان سے یہ چھوٹی سی خوشی بھی چھین لیتی ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ جو ایک بار دنیا سے چلا گیا ، وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ زندگی صرف ایک بار جینے کا نام ہے اور ہمارے ہاں زندگی کو بار بار مر کر جیا جاتا ہے۔ طبعی طور پر دنیا بھر میں زندگی کا دورانیہ ستر سے پچھتر برس پر محیط ہے۔ فرض کریں کہ آپ کو 70 سالہ زندگی ملی ہے تو زندگی کے ابتدائی 15 برسوں میں کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی اور زندگی کے آخری پندرہ سال صعف، کمزوری اور بیماری کی نذر ہو جاتے ہیں۔ آپ کو صرف 40 سال میسر آتے ہیں جنہیں آپ سوچ سمجھ کر گزار سکتے ہیں۔ ان سے بھرپور طریقے سے محظوظ ہو سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ 40 قیمتی برس زندگی کی تگ و دو میں گزر جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ معاش کی فکروں میں عین جوانی کے دنوں میں بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ آج بھی کسی 25 یا 30 سال کے نوجوان کو دیکھیں تو اس کے سر میں سفید بال، پیشانی پر لکیریں، آنکھوں کے گرد حلقے اور چہرے پر تلخ تجربات اور ناکامیوں کی جھریاں ہونگی۔ صرف پاکستان میں ہر سال ساڑھے چار ہزار افراد روزگار نہ ملنے کے سبب خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ اُن سے وابستہ گھر کے چھ سات افراد بھی درد کی سُولی پر مغلوب ہو جاتے ہیں۔ گویا ہر سال 30 ہزار افراد کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ بھی المیہ ہے کہ جہیز نہ ہونے کی پاداش میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ لڑکیاں شادیاں ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ ہر سال سینکڑوں جوڑے ہنی مون پر محض اس لیے نہیں جا پاتے کہ اُن کے وسائل نہیں ہوتے۔ پاکستان میں بدترین معاشی حالت نے لوگوں کو اعصابی اور نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ تفریح کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں ’’ٹارچر‘‘ بڑھ گیا ہے۔ محروم اور مایوس لوگ دوسروں کی خوشیوں سے بھی حسد کرتے ہیں۔ تقابل اور مسابقت نے کرپشن اور کرائم کو بڑھا دیا ہے۔ جرائم کی خبروں سے جرم کو تقویت ملتی ہے۔ ہمارے ہاں کامیابی اور اچھائی کی خبروں کو اندر یا کونے میں لگا دیا جاتا ہے لیکن گھنائونی، شرمناک اور مجرمانہ خبریں فرنٹ اور بیگ پیج کی زینت بنتی ہیں۔ اخبار اٹھا کر دیکھیں تو خیر کی خبریں بمشکل تمام نظر آئیں گی اور ایسی خبریں زیادہ بڑی کوریج کے ساتھ ہونگی جس سے آپ کا فشار خون بڑھ جائے گا اور شوگر لیول بگڑ جائے گا۔ندازہ لگائیں کہ ایک دن میں کتنے پاکستانی مرتے ہیں۔ میری سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اوسطاً ڈھائی سو افراد غیر طبعی موت مرتے ہیں۔ کسی کو خوف نہیں آتا کہ پاکستانیوں کو گاجر مولیوں کی طرح کاٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ انہیں بن موت کے مار دیا جاتا ہے۔ سفاکانہ ہاتھ موت بانٹتے ہیں۔ ان ساری اموات کی وجہ بیماری نہیں۔ ان سب کو سانپ بچھو ریچھ یا بھیڑیے نے نہیں مارا۔ یہ سب انسانوں کے سبب غیر طبعی موت مرے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ جس شخص نے ابھی پوری دنیا نہیں دیکھی ، جس آدمی نے پوری طبعی عمر نہیں جی ، اسے موت کے گھاٹ کیوں اُتارا ہے؟ لیکن کیا کبھی حکومت نے بھی اس بارے میں سوچا ہے؟