جُرم ضعیفی

اس دوران ان پر جو بیتی، شاید اس کا تصور بھی نہ کیا جا سکے۔ بیماریوں نے آ لیا، زہزنوں کے ہتھے چڑھے، بھوک سے بدحال ہوئے اور جب کچھ نہ بن پایا تو وطن لوٹ آئے۔ جہاں اب ان کا کچھ بھی نہیں تھا اور باقی زندگی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں بسر کی۔ ادھر اسلامیان ہندخلافت کے عشق میں سب کچھ داؤ پر لگا چکے تھے اور اُدھر ترکی کی نئی قیادت نے خود ہی اس کا خاتمہ کر کے قصّہ تمام کر دیا۔ یہی نہیں خلافت کے لئے اسلامیان ہند کی بے قراریوں کو شک کی نظر سے دیکھا گیا‘ تو اس حوالے سے ہندی مسلمانوں کے ایک وفد نے اتاترک سے ملاقات کی۔ موصوف سخت حیران ہوئے اور کہا کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور آپ ہمیں پیچھے کی جانب کھینچنے پر مصر ہیں۔ ہم نے آزادی لڑ کر حاصل کی ہے۔ جاؤ پہلے برطانوی استعمار سے نجات حاصل کرو، پھر ہمارے ساتھ بات کرنا۔
اس وقت دنیا میں ستاون مسلم ممالک ہیں‘ او آئی سی کے نام سے ان کی ایک تنظیم بھی ہے۔ مگر حیرت کی بات کہ اس کے ’’کارناموں‘‘ کی طرح اس کا وجود بھی دکھائی نہیں دیتا۔ جدہ میں آپ کسی ٹیکسی والے سے او آئی سی کے دفتر کا پوچھیں تو وہ پلٹ کر آپ کے منہ کی طرف دیکھے گا کہ یہ آپ نے مجھے کس آزمائش میں ڈال دیا، یہاں تو اس نام کو کائی دفتر وغیرہ نہیں ہے۔ اور اس کے مقابلے میں کسی چھوٹے سے ملک کے قونصل خانہ کا پوچھیں تو وہ دوسری بات نہیں کرے گا، جھٹ گاڑی کا دروازہ کھول دے گا۔ او آئی سی کے حوالے سے ایک گھسا پٹا لطیفہ بھی آپ نے سن رکھا ہو گا۔ کہ یہ اس قدر بے توقیر ارادہ ہے کہ عالمی فورمز پر او آئی سی کا ذکر آئے تو لوگ مزاحاً کہتے ہیں ’’Oh I See‘‘ یعنی اچھا، میں اب سمجھا کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ او آئی سی کے سابق سیکرٹری جنرل عیاض امین مدنی اگست 2014ء میں اسلام آباد تشریف لائے تھے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز میں غزہ میں ہونے والی اسرائیلی بربریت کا نوحہ پڑھا اور فرمایا کہ وہ جارحیت رکوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ سلامتی کونسل میں جائیں تو امریکہ ویٹو کر دے گا۔ عالمی عدالت برائے انصاف کا دروازہ یوں بند ہے کہ فریقین (اسرائیل اور فلسطین) اس کے رکن نہیں۔ ایسے میں او آئی سی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں۔ اجلاس بلا بھی لیا جائے تو بے مقصد ہو گا۔ کشمیر میں جاری بھارتی بربرّیت کے سوال پر بھی OIC کا جواب کم و بیش یہی ہو گا۔
ستاون ملک، ڈیڑھ ارب کی آبادی، بے پناہ قدری وسائل اور بے بسی کا یہ عالم، عذاب الٰہی تو اور کیا ہے؟ اللہ کی رسی کو ہم نے چھوڑ دیا۔ اخوت یگانگت ہمارے پاس سے ہو کر نہیں گزری۔ ایسے میں نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کا شیرازہ تیزی سے بکھر رہا ہے۔ مایوسی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ کم وسیلہ مسلمان خلافت اور اجتماعی نظم میں روشنی کی کرن ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید اس طریقے سے ہی ان کے دلدّر دور ہو جائیں اور وہ سکھ کا سانس لینے لگیں۔ جبکہ امیر کبیر مسلم ممالک انہیں مفلس و قلاش جانتے ہوئے دستگیری تو دور کی بات، معمولی سی لفٹ کرانے کے بھی روادار نہیں۔ ان کی ترجیحات اور ہیں، جن میں یہ غریب غرباء فٹ نہیں بیٹھتے۔ ترجیحات کا یہ بعد اور نظریات تفاوت دنیائے اسلام کو یکجا کرنے میں، کبھی نہ پاٹی جانے والی خلیج کی شکل میں حائل ہیں۔ لسانی اور نسلی تفاخر بھی عروج پر ہے اور ڈیڑھ ہزار سال پہلے عربی و عجمی کی مٹائی جانے والی تفریق پورے شدومد کے ساتھ اب بھی موجود ہے۔ اسلامی اخوت و یگانگت کے صبح و شام دہرائے جانے والے خطبات کے باوجود عملی طور پر ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایسے میں مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ کا تذکرہ ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں اور عملی طور پر اس میں سے کچھ بھی برآمد ہونے والا نہیں۔
رہی اس معاملہ پر تازہ ترین ڈویلپمنٹ، تو عرض یوں ہے کہ کشمیر کی صورت حال پر عرب دوستوں کے تجاہل عارفانہ سے پریشان ہو کر جناب عمران خان نے سعودیہ اور UAE کی لیڈر شپ کو براہ راست کئی فون کئے۔ جناب شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے ہم منصبوں سے رابطہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں سعودیہ اور UAE کے وزرائے خارجہ کی اسلام آباد میں تشریف آوری ہوئی۔ وزٹ کے دوران خلیجی ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ گہرے سٹریٹجک تعلقات کا ذکر ہوا اور یہ کہ پاکستان نے علاقہ کے امن و سلامتی کیلئے بہت کام کیا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف سے آگہی حاصل کی۔ اور وادی میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر فکر مندی کا اظہار کیا… اور بس۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن