امیت شاہ کا جھوٹ اور بھارتی سپریم کورٹ!!!!!

عدالتی نظام درست کام کرے یا غلط لوگوں کو انصاف مل رہا ہو یا ناانصافی عام ہو جائے، انصاف سستا ملے یا مہنگا، انصاف مشکل ملتا ہو یا آسانی سے ہر صورت میں عدالت وہ آخری راستہ ہوتا ہے جہاں سے متاثرین کو مدد ملتی ہے۔ یہ عدالتی نظام کی خوبی ہے کہ اعتماد یا عدم اعتماد کی صورت میں بھی یہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ تمہیں عدالت میں دیکھوں گا یا تم سے عدالت میں ملاقات ہو گی۔ یہی جملہ آج تک اس نظام کی بقا کی ضمانت بنا ہوا ہے۔ تاریخ میں ایسے کئی مواقع آئے ہیں جب حکمرانوں کو بھی عدالت نے ریلیف دیا، طاقتور بھی بے بس ہوئے تو عدالت کا راستہ اختیار کیا اور جب کبھی کوئی کمزور ہر طرف سے پھنس جائے کوئی اس کی بات نہ سنے تو ان حالات میں بھی عدالت ہی آخری امید ہوتی ہے۔
کشمیریوں کا کیس دنیا کی عدالت میں بھی لگا ہوا ہے اس عدالت کا ضمیر کب جاگتا ہے اس بارے تو کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن دنیا کی عدالت بھی دوراہے پر ہے جنت نظیر کشمیر کے لاکھوں افراد پانچ اگست سے آج تک اپنے گھروں میں قید ہیں۔ ان پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ بیمار کے پاس دوائی نہیں، بچوں کے پاس کھیلنے کو جگہ نہیں، جدید دور میں رابطے کے ذرائع بند ہیں، معلومات کے حصول کی سہولتیں بند کر دی گئی ہیں۔ مساجد اور امام بارگاہیں بند کر دی گئی ہیں۔ نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ کیس دنیا کی عدالت کے سامنے ہے۔ عالمی طاقتوں کا بھی امتحان ہے۔ انسانی حقوق کی چیمپئن تنظیموں کا بھی امتحان ہے کہ تاریخ کے بڑے کریک ڈاؤن اور نسل کشی کے منظم منصوبے پر وہ کیا کرتی ہیں۔ پاکستان کشمیر کا کیس بین الاقوامی سطح پر لڑ رہا ہے تو بھارتی سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر حکومت کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنی حکومت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے دائر درخواست پر حکومتی دلائل مسترد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ کشمیر میں زندگی معمول پر لانے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں۔
یہ درخواست بھی ایک صحافی کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ جس کی سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گنگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت کو ہر اقدام اٹھاتے ہوئے ملکی مفاد کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن مقدمہ جموں کشمیر کی ہائیکورٹ میں بھی اٹھایا جا سکتا تھا۔ عدالت میں حکومت کے وکیل نے جھوٹ کی انتہا کر دی۔ جھوٹوں کی حکومت دنیا بھر میں جھوٹ بولتے بولتے نہیں تھکتی نریندر مودی تو ان کے وکیل نے سپریم کورٹ کے سامنے وہی بیانیہ دہرایا جو بی جے پی کے اس ٹولے کا ہے جس نے ہندو برتری کے جنون میں کشمیر کی حیثیت تبدیل کی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈاؤن ہے لیکن سپریم کورٹ میں نریندرا مودی کی حکومت کا موقف یہ تھا کہ کشمیر میں کوئی گولی نہیں چلائی گئی اور نہ ہی وہاں کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔وادی میں ہسپتال سمیت تمام کاروبار کھلے ہیں بلکہ ایک موقع پر تو یہ موقف بھی اختیار کیا گیا تھا کہ وادی میں تمام اخبارات بھی شائع ہو رہے ہیں۔ اتنے موزوں حالات تو شاید بھارت میں بھی کہیں نہ ہوں مقبوضہ کشمیر میں تو نو لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ درخواست گذار کو جموں ہائی کورٹ کے بجائے بھارتی سپریم کورٹ کا رخ کرنا پڑا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ قانون کے رستے میں کون آ رہا ہے اس بارے وہ جموں کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے پوچھیں گے، ضرورت پڑی تو وہ خود بھی جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی کو بھی زمینی حقائق پر مبنی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔ غلام نبی جموں، سرینگر، بارہ مولا اور اننت ناگ کا دورہ کر سکتے ہیں تاہم انہیں کوئی جلوس یا ریلی نکالنے اجازت نہیں ہو گی۔ یہ تمام فیصلے نریندرا مودی کا ظلم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی نظر بندی پر بھی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ بھارتی حکومت نے انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کر رکھا ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بھارتی حکومت کسی بھی شخص کو دو سال تک بغیر مقدمے کے گرفتار رکھ سکتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ مشتبہ شدت پسندوں یا علیحدگی پسندوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے یہ پہلا موقع ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ کو اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی سالہ بھارت نواز فاروق عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندو بنیا صرف اپنے مفادات کا سگا ہے کل تک آنکھوں کا تارا بنے رہنے والے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کو آج شدت پسندوں کی فہرست میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ نا صرف پی ایس اے لگایا گیا ہے بلکہ فاروق عبداللہ کے گھر کو ذیلی جیل کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے۔یہ ہے جمہوری انڈیا کا اصل چہرہ جہاں جمہوریت کے نام پر بدترین آمرانہ رویے انتہا پر ہیں اور کشمیریوں کو بھارتی ڈکٹیٹرز ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ وہی فاروق عبداللہ ہیں جن کے بارے میں چھ اگست کو مرکزی وزیر داخلہ جھوٹوں کے سردار امیت شاہ نے کہا تھا کہ نہ تو انہیں نظر بند کیا گیا ہے نہ ہی وہ زیر حراست ہیں بلکہ وہ اپنی مرضی سے وادی میں رہ رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے ان بھارتیوں کی جو ساری دنیا کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کیس میں قانون اور حقائق کی روشنی میں ریمارکس اور احکامات جاری کیے ہیں۔ دوران سماعت عدالت میں کہیں بھی حکومتی وکیل دلائل سے بینچ کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یقینا ایسے ہی بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت انسانی حقوق پامال کر رہا ہے۔ انسانوں کو قید کر رکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کب تک ان مظالم پر خاموش رہتی ہے۔ سپریم کورٹ میں بی جے پی کے بڑے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں دنیا اس سماعت کو بنیاد بنا کر ہی کشمیر کا مسئلہ سنے تو بہت آسانی سے سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن