معرکہ بڈھ بیر پشاور، شہیدکیپٹن اسفند یار بخاری کی یادیں…1

Sep 17, 2020

بڈھ بیر پشاور کا  نواحی قصبہ ہے، 1958میں یہاں ائیر بیس تعمیر ہوا ۔یہ ہوا ئی اڈا 17جولائی 1959کو 10سالہ لیز پر امریکہ نے حاصل کیا تاکہ وہ روس پر کڑی نظر رکھ سکے ۔یہاں کی کالونی چوبی گھروں پر مشتمل ہے ۔پھر جب یہ راز طشت ازبام ہوا کہ امریکہ یہاں سے روس کی جاسوسی کر رہا ہے تو یہ بات پاکستان کے لیے کافی جگ ہنسائی کا باعث بنی اور بڈھ بیر کا نام پوری دنیا میں مشہور ہو گیا ۔روس نے بڈھ بیر کو  ریڈ مارککر لیا ۔17جنوری 1970ء کو یہ ائیر بیس پاکستان نے امریکہ سے واپس لے لیا ۔بڈھ بیر کے مین بازارسے ایک سڑک اس ائیر بیس کو جاتی ہے۔ جس کا نام انقلاب روڈ ہے ۔اسکے دونوں جانب ائیر فورس کے دفاتر اور کالونیاں ہیں دہشتگر دوں نے پاک فضائیہ سے بدلہ لینے کے لیے بڈھ بیر پر بڑا حملہ کر دیا ۔دسمبر 2014کو سفاک دہشتگردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کر کے 142بچوں کو نہایت بے دردی سے شہید کردیا تو پورا پاکستان غم و اندوہ میں ڈوب گیا۔ افواج پاکستان نے  ضرب عضب  کے نام سے ایک آپریشن شروع کیا۔ اس آپریشن نے دہشتگروں کی چییخیںنکال دیں۔ ان کی پناہ گاہیں تباہ کرنے میں پاک فضائیہ نے بھرپور حصہ لیا اور ان کی کمر توڑکر رکھ دی۔ خودساختہ  ٹی ٹی پی نے فیصلہ کیا کہ پا ک فضائیہ کو سزادی جائے۔ انھوں نے بڈھ بیر ایئربیس پر حملے کا ہولناک منصوبہ ترتیب دیا ۔    انڈین پرور دہ  ٹی ٹی پینے جلدہی ایسا موقع تلاش کرلیا ۔جب پاک فضائیہ کے کافی پائیلٹ یہاں ٹریننگ کی غرض سے آئے ہوئے تھے ۔دہشتگردوں کی پلاننگ یہ تھی کہ" سب سے پہلے گیٹ کے محافظین کو مارا جائے ۔اسکے بعد ائیر بیس کی بیرکوں میں جا کر تباہی مچادی جائے اور پھر ٹریننگ پر آئے ہوئے پائلٹ، رہائشی کالونی اور ایئر بیس کو ہدف بنایا جائے ۔ہوسکے تو کچھ پاک فضائیہ کے جوانوں کو یر غمال بھی بنالیاجائے اور یہ آپریشن چاردن تک جاری رہے"۔ مندرجہ بالامذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے وہ مکمل طورپر کیل کانٹے سے لیس ہوکر آئے تھے۔ پاک دھرتی پر دہشتگرووں کایہ سب سے بڑا حملہ تھا ۔یا ر رہے کہ7 دہشتگرد  اے پی ایس پشاورمیںآئے تھے توکتنی زیادہ تباہی مچادی تھی۔ اب تویہ تعداد میں 14تھے۔خدا نخوستہ اگر دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجاتے تو دنیا بھر میں پاکستان کی عزت خاک میں مل جاتی ۔افواج پاکستان پر قوم کا اعتماد متزلزل ہو جاتااور ملک غیر مستحکم ہوجاتا ۔انڈیا اور اسرائیل خوشیوںکے شاد یانے بجاتے۔سفاک دہشتگروں نے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرلی 18ستمبر 2015بروز جمعہ علی الصّباح 5بجکر 20منٹ پر دہشت گردوں نے بڈھ بیر ایئر بیس پر یلغار کردی ۔انہوںنے آتے ہی گیٹ پر موجود محافظین کو اپنے نشانے پر لیا اور گیٹ کھول کر اندر داخل ہوگئے۔ ائیر فورس کی کیو آر ایف نے بڑی بے جگری سے ان کا مقابلہ کیا مگروہ بہترین اسلحہ سے لیس اور اعلیٰ تربیت یافتہ تھے ۔دہشت گرد آگے بڑھ    کر بیرکوںمیں گھس گئے ۔مسجد میں نمازِ فجر ہونے کو تھی ،جہاں ائیر فورس کے جوان نماز پڑھنے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ ان بدبختوں نے نمازیوں پر فائر کھول دیا، جس سے متعد دنمازی شہید ہوگئے ۔اسی اثناء میں -12پنجاب اور -15بلوچ کی کیو آر ایفبھی پہنچ گئیں۔ میجر حسیب ان کی قیادت کررہے تھے۔ دہشتگردوں نے بہت جلد 28افراد کو شہید جبکہ29کو زخمی کردیا ۔میجر حسیب بھی زخمی ہوگئے اور  سی ایم ایچ چلے گئے ۔حالات بہت زیادہ تشویش ناک تھے
 ۔دہشتگر د پہلے مرحلے میں اپنے پلان پر عمل کرتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہورہے تھے ۔اب دیگر اہداف کے لیے ا نہوں نے رہائشی کالونی میں گھسنا تھا۔102بریگیڈ کے کمانڈر عنایت حسین اور کیپٹن اسفند یار بخاری کی آمد6بج کر25منٹ پربریگیڈئر عنایت حسین اپنے سٹاف افسرکیپٹن اسفند یار بخاری کے ہمراہ بڈھ بیر پہنچ گئے ۔حالات سے انہیں آگاہی تھی۔ کیپٹن اسفند یار بخاری اپنی قابلیت ، دلیری اور بہادری میں پاک آرمی کے بہترین آفیسر شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے پی ایم اے کاکول سے  ملٹری  Tacticsمیڈل اوـر’’شمشیرِاعزاز ‘‘بھی حاصل کر رکھی تھی۔ تقریباً 2سال جنوبی وزیر ستان میں دہشتگردوں سے پنجہ آزمائی کرکے آئے تھے ۔وہاں انہوںنے جرا ت وشجاعت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ جن کو سن کر عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔کیپٹن اسفند یار بخاری نے بریگیڈیئرصاحب سے کہا کہ حالات بہت دگر گوں اور خطرناک ہیں ۔براہ ِ مہربانی اس آپریشن کی کمانڈ مجھے دی جائے ۔اس پر بریگیڈئر صاحب نے کہا کہ یہ تو آپ کی ڈیوٹی نہیں ہے ، آپ تو سٹاف آفیسر ہیں۔ یہ سن کر اُس سر فروش کپتان نے کہا کہ سر!  میجر حسیب کے جانے کے بعد دیگر آفیسر جونئیراور نا تجربہ کار ہیں ، جبکہ دہشتگرد ویل ٹرینڈ اور جدید اسلحہ سے لیس ہیں ۔اور سر !  جب وطن پکارے تو ڈیوٹی پر ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔آخرکار کمانڈ اسفند یار کے حوالے کردی گئی۔کپتان اسفند کی شاندار کمانڈ نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا۔اسفند نے وہ کام کیا جو دہشتگردوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ اس نے بلٹ پروف گاڑی لی اور تنِ تنہا دہشتگردوں کے سامنے چٹان بن گیا۔ اسفند کی گاڑی پر ہر طرف  سے فائر آیا۔ دہشت گردوں کی تمام ترتوجہ کا مرکز اب یہ گاڑی تھی ۔اسفند بھی ان پر مسلسل فائرنگ کررہا تھا ۔ دہشتگردوں کی پیش قدمی رُک گئی ۔کپتان اسفند کا پلان کامیاب رہا ۔ اس دوران میں اس کے جوانوں نے اس سنہری موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور کالونی کی طرف جانے والے تمام راستے سیل کر دیئے ۔دہشتگرد جوپہلے آگے بڑھ بڑھ کے حملہ کر رہے تھے ۔28لوگوں کو شہید اور 29کو زخمی کرنے پر شاداں تھے۔ اب وہ طاعون زدہ چوہوں کی طرح اپنی جانیں بچاتے اِدھر ُادھر بھاگ رہے تھے ۔ کبھی اس بیرک میں تو کبھی دوسری بیرک میں۔ان کے باہر جانے کے تمام راستے مسدود تھے ۔ اب حال یہ تھا کہ  ’’ پائے رفتن نہ جائے ماندن ‘‘ ۔  دہشت گرد جدھر رُخ کرتے ،پا ک فو ج کے بہادر جوان انھیں موت کی صورت میںسامنے نظر آتے ۔ اسفند نے اِس معرکہ میں ثابت کیا کہ ایک بہادر اورذہین کمانڈر کس طرح حالات کا رُخ موڑ سکتا ہے ۔ متوقع شکست کو فتح میں تبدیل کر سکتا ہے ۔اسی دوران اسفند کو 7:35بجے ایک دوست کا فو ن آیا تو اسفند نے کہایار ! دو پھڑ کا چکاہوں ۔ اس معرکہ میں اسفند کے زیر کمان جوان کہتے ہیں کہ صاحب نے ہمیں محسوس ہی نہیںہونے 
دیا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، لگتا تھا کہ ہم شکار کھیل رہے ہیں ۔ کپیٹن اعجاز کہتے ہیں کہ میں نے اسفند جیسا جری اور جان فروش نہیں دیکھا ۔ ہم آگے بڑھے تو دہشت گردو ں نے ہم پر فائرنگ کر دی ۔ اسفند کے ساتھ ہم تین جو نیئر کپتان تھے۔ ان خوفناک حالات میں اسفند نے جو فیصلہ کیا وہ حیران کن بھی تھا اور نہایت جرات مندانہ بھی ۔ اُس نے کہا کہ ان گیڈروں کو سبق سکھانے کیلئے ہمیں بلٹ بروف گاڑی سے باہر نکلنا ہو گا۔ میں نے فوراً کہا سر ! باہر شدید فائر نگ ہو ر ہی ہے ۔اس کے جواب میں اسفند نے کہا کہ اگر ہم نہ نکلے تو ہو سکتا ہے وہ کسی طرح کالونی میں گھسنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ اور اگر یہ ہو ا تو پھر APSپشاور سے بھی بڑا سانحہ رونما ہو جائے گا۔ پھرہم نے دیکھا کہ ایک دہشتگرد بیرک سے فائرنگ کر تا ہوا مسجد کی سیڑھیو ں کی طرف جانے لگا۔  (جاری ہے)
 جہاں کافی زخمی کراہ رہے تھے۔ کپیٹن اسفند چشم زدن میں گاڑی سے باہر کو دے اور شدید فائر نگ میں اُس دہشت گرد پر چڑھ دوڑے۔ اسے ہلاک کرنے کے بعد ایک پِلرکی اوٹ سے دہشتگردوں پر فائر نگ کرنے لگے۔ دہشت گرد وں کی ترکی تمام ہو گئی ۔نائیک شفیق کہتا ہے کہ میں نماز فجر کیلئے مسجد میں آیا تھا ۔ وہاں فائر نگ ہو ئی کا فی نمازی شہید ہو گئے ۔جن میںمیرا رومیٹ طارق کیانی بھی شامل تھا ۔ پھر میں نے وہ منظر دیکھا جو شاید کبھی فراموش نہ کر سکوں ۔ میں مسجد کی کھڑکی کی اوٹ میں تھا ۔ میںنے دیکھا کہ آرمی کی گاڑی سے اک نوجوان کودا اور دہشت گرد کی طرف بھاگا،جو مسجد کی سیڑھیوں پر پڑے ہوئے زخمیوں کو مارنے آرہا تھا ۔ اُس جوان نے کمال مہارت سے اُسے جہنم واصل کیا ۔ اب میں نے اُسے قریب سے دیکھا تو یہ پاک آرمی کا کپتان تھا ۔ پھر اُس نے ایک اور دہشت گرد کو جہنم واصل کیا ۔ تو دہشت گرد مسجد والے علاقے سے مشرقی بیرکوں کی طرف بھاگ نکلے۔ 
 عوام الناس میں ایک بات مشہور ہے کہ دہشت گرد بہت بہادر ہوتے ہیں ،انہوں نے اپنی جانیں اپنی ہتھیلی پر رکھی ہوئی ہوتی ہیں، آج تو حالت یہ تھی کہ یہ سورما موت کو سامنے پا کر گیڈروں کی طرح چھپتے پھر رہے تھے۔ آج تو ان کی خودکش جیکٹیں بھی نہ پھٹ رہی تھیں ،اُ ن کے اوسان مکمل طو ر پر خطا ہو چکے تھے ۔ 11-FFکے حوالدار محب اللہ کا کزن سپاہی نوشاد علی ٹانگ میں گولی لگنے کے باعث زخمی ہو گیا ۔ اُس نے ایک پلر کے ساتھ پناہ لے لی۔ ایک دہشتگرد فائرنگ کرتا ہو ا اس کے پاس سے گزرا۔ دہشت گرد نے اُسے دیکھا لیا ۔ نوشاد علی کہتا ہے کہ میں بے بس تھااورموت میرے سامنے کھڑی تھی ۔ابھی اس نے میر ی طرف گن اٹھا ئی ہی تھی کہ ایک سنستانی ہوئی گولی اس کا بھیجا اُڑا گئی اور وہ میرے سامنے زمین بوس ہو گیا ۔ میں نے فوراً غیر ارادی طور پیچھے دیکھا تو کپیٹن اسفند نظر آئے۔ پھر مجھے اٹھا کر محفوظ مقام تک لے آئے ۔ اُن کا یہ احسان کبھی بھول نہیں سکتا ۔دہشت گردمارے گئے ، آپر یشن اختتام پذیر ہوگیا 8بجکر 7منٹ پر آپریشن تقریباً ختم ہو گیا۔ کپتان اسفند نے بریگیڈئیر عنایت حسین کو کال ملائی تا کہ انھیں بتا سکے کہ آپریشن ختم ہوا ۔ ، تما م دہشت گرد مارے گئے جبکہ اُسکی کمانڈ میں فقط دو جوان زخمی ہوئے ۔ عین اسی وقت اسکی نگاہ لطیف بیرک کے کمرہ نمبر 4پر پڑ ی،جس کے باہر لال رنگ کا آگ بجھانے والا آلہ لگا ہو ا تھا ۔ اُس کمرے میں ایک دہشت گرد موجودتھا۔ -12پنجاب کے ایک دلیر حوالدار نے کہا کہ سر ! میں اس پر جاتا ہو ں ۔ مگر کپتان صاحب گویا ہوئے کہ صاحب ! یہ Reflexکی گیم ہے اور آپ کے چھوٹے چھوٹے بچے ہو ںگے، میں خود جائوں گا۔ اُس وقت تک کپتان اسفند 13میں سے چار کو بذات خود جہنم روانہ کر چکے تھے۔اُن کامورال بہت ہائی تھا ۔ آپ نے ایک نائیک کو ساتھ لیا اور اسے کہا کہ جوان ! تمھارا کام صرف دروازے کو ٹانگ ما ر کر کھولنا ہے ، اند ر میں خود جائوں گا ۔بالا ٓ خر کپٹن اسفند یار نے شہادت کو ڈھونڈ لیا اُسی لمحے دہشتگرد کی گن سے ایک گولی نکلی۔ فرش کو لگ کر Deflectہو ئی اور اسفند یار کی بائیں ران کو معمولی زخمی کر گئی۔ اب اسفند یا ر نے SMGکا پورا برسٹ اُسے مارا ۔ وہ مردود پیچھے گرا تو اُسکی گن اوپر آئی،  پھر اس میں سے ایک گولی نکلی جو سیدھی اسفند یارکی چھاتی کے بائیں جانب عین مقام ِدل میں پیوست ہو گئی ۔ دہشتگرد تو اسی وقت مر گیا۔ اسفند کو زخمی حالت میں باہر لایا گیا مگر ہیلی کاپٹر کے آنے سے قبل ہی یہ عظیم مجاہد اسلام کی خاطر اپنے وطن پر اپنی جان نچھاور کرگیا۔ یاد رہے کہ یہ واحد آپریشن ہے، جس میں کمانڈوز کے آنے سے قبل ہی آپر یشن کامیابی ہمکنار ہوگیا ۔قابل ِ غور بات یہ ہے کہ اسفند کی کمانڈ لینے سے قبل 28افراد شہید اور 29زخمی تھے جبکہ اسفند کی کمانڈ میں صرف2جوان زخمی ہوئے اور شہادت اسفند کے حصہ میں آئی ۔
انڈین میڈیا چیخ اٹھا ۔کپتان اسفند یار کی مثال انڈیا میڈیا نے اس وقت دی ، جب انڈیا میں پٹھان کوٹ ائیر بیس میں 5حملہ آورگھس گئے تو انڈین آرمی کو ان سے ائیر بیس خالی کروانے میں 4 دن لگ گئے ۔انڈین میڈیاچیخ اٹھا کہ پاکستان کے ایک کپتان کی قیادت میں 14دہشتگردوں کو صرف 2گھنٹے میں مارکر بڈھ بیر ائیر بیس کلیئر کرا لیا اور یہاں 4 دن لگ گئے ۔معرکہ بڈھ بیر کے چار پیغامات٭… قوم کے لیے پیغام ہے کہ ان کے آرام سکون کیلئے افواج پاکستان اپنے نہایت قیمتی رتن قربان کر رہی ہے ۔اس بات کا احساس قوم کو بھی ہونا چاہیے جن ممالک کی فوج  کمزور ہے ان کا حال دیکھیں ٭… افوا ج پاکستان کیلئے پیغام ہے کہ یہ مت سوچیں کہ آپکی ڈیوٹی ہے یا نہیں ۔آپ ہائی پرو فائل ہیں ۔مگر جب وطن پکارے تو سب کچھ پسِ پشت ڈال کر وطن کے دشمنوں پرٹوٹ پڑیں۔جس کی بہترین مثال کپتان اسفند یار بخاری ہیں٭…دہشتگردوں کیلئے پیغام ہے کہ آپ ہر مرتبہ APSپشاور کی تاریخ نہیں دہرا سکتے ۔اس فوج میں بہت سارے اسفند موجود ہیں جو ان کے مذموم عزائم کو خاک میں  ملانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔٭… دنیا کو پیغام ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی طویل اور صبر آزما جنگ جیت لی ہے کیونکہ اسکے بہادر آفیسر سپاہیوں کے عقب میں نہیں چھیتے بلکہ فرنٹ سے لیڈکرتے ہیں ۔

مزیدخبریں