زینب کیس میں سزا پانے والے درندے کے بعد قوم یہ اُمید لگا چکی تھی کہ اب ننھی پریاں جوان بہن بیٹیوں کی جانب کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا اب قوم کی بہن بیٹیاں اپنی عزت کو ہر اعتبار سے محفوظ سمجھیں گی مگر بد قسمتی سے یہ خواب چند دنوں کے لئے بھی ممکن نہیں بنایا جا سکا ایک جانب اُس وقت کی حکومت مجرم کو پھانسی کی سزا دے رہی تھی تو دوسری جانب کہیں ایک اور زینب زیادتی کا نشانہ بنائی جارہی تھی جس ماہ زینب کے قاتل کو سولی چڑھائے جانے کا سیاسی جشن منایا جارہا تھا اُس وقت سے اب تک زیادتی کے رپورٹ کیسزکی تعداد چار ہزار سے زائد ہے جبکہ کہ بہت سے کیس ایسے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں کیئے گئے جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ جس روز موٹروے سانحہ رونما ہوا تو سوشل میڈیا پر بہت سی خواتین منظر عام پر آئیں جن کا یہ کہنا تھا کہ موٹروے پر ان کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور کسی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ان واقعات میں کتنی صداقت ہے اس کی مکمل تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ زیادتی کے واقعات کو کس طرح سے لگام ڈالی جائے یہ پہلی حکومت نہیں جس کے دور اقتدار میں زیادتی کے واقعات رونما ہورہے ہیں بد قسمتی سے ہر دور میں یہ واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جس کی روک تھام کے لئے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہمیشہ یہ دردناک واقعات سیاست کی نذر ہوتے رہے ہیں۔ سندھ سے لے کر پنجاب تک ہر روز کوئی نہ کوئی عورت جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے غلامی کا سورج آج بھی اس ملک میں غروب نہیں ہوسکا آج بھی غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کیا جارہا ہے۔یہ واقعات کسی ایک فرد یاکسی ایک ادارے کی کمزوری کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ نظام کی کمزوری کا نتیجہ ہیں۔ کہنے کو تو ہم ایک آزاد قوم ہیں مگر بد قسمتی سے ہم ایک بوسیدہ نظام کے سائے میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہم ہر سانحہ چاہے وہ زیادتی کا کیس ہو یا جعلی پولیس مقابلے میں کسی بے گناہ نوجوان کی ہلاکت کا کیس ہو‘پولیس تشدد میں ہلاک ہونے والا نوجوان ہو یا سڑک پر جرائم پیشہ افراد کا نشانہ بننے والے افراد ہوں سب کہ سب ایک بوسیدہ نظام کی زد میں ہیںاگر یہ نظام درست نہیں ہوسکا تو شاید موٹروے حادثہ سمیت مختلف سانحے ہر روز رونما ہوسکتے ہیں۔ کرپشن اور احتساب کے خلاف موجود حکومت کوگرانے کے لئے اے پی سی کا انعقاد کرنے والی اپوزیشن کی جماعتوں کو اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی ضرورت ہے‘ ہر ودر میں زیادتی کا کیس ہو یا دہشت گردی کا سانحہ ہو ہر اپوزیشن نے ان واقعات پر صرف سیاست کی ہے کبھی بھی ان دردناک واقعات کو روکنے کے لئے سنجیدہ کوشش اور مذمت کے راگ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی گئی جس کا مکمل فائدہ ہمیشہ سے جرائم پیشہ افراد کو ہوتا رہا اور یہ افراد پہلے سے زیادہ طاقتور ہوتے رہے جو عوام کے لئے آج مصیبت کا سبب بنے ہوئے ہیں۔اس قت ملک کو سنگین اندرونی بحران درپیش ہیں ایک طرف کراچی برسات کی وجہ سے تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے تو دوسری جانب غیر قانونی اورناقص میٹریل سے تیار عمارتیں گرنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں کئی افرادجان کی بازی ہار گئے ہیں ۔یہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی نااہلی نالائقی ہے کہ آج معاشی حب کراچی شہر مسائل کی زد میں ہے دوسری طرف زیادتی کے واقعات ہیں جس کا کبھی کوئی معصوم ننھی پری نشانہ بن رہی ہے تو کہیں جوان لڑکیوں کو سڑکوں پر تو کہیں تعلیمی اداروں میں اورہسپتالوں میں زیادتی کی بھینٹ چڑایا جارہا ہے زیادتی کے واقعات پر ہم سب ذمہ دار ہیں کیوں کہ الیکٹرنک میڈیا اور سوشل میڈیا پر جس طرح کی بے حیائی مسلط ہے وہ نوجوان نسل کو بے حیائی کی جانب لے جارہی ہے بڑے بڑے میڈیا چینل بے حیائی کے پروگرام نشر کر کے نوجوان نسل کو بے حیائی کی جانب راغب کرنے میں اس وقت اہم کردار ادا کر رہے ہیں جس پر اس وقت کی موجود ہ ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت وسمیت تمام مذہبی جماعتیں سب خاموشی تماشائی بنی ہوئی ہیں۔یقینا اس وقت ملک میں ننھی بچیوں نوجوان خواتین سمیت خواجہ سرائوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا ایک طویل عرصے سے سلسلہ جاری ہے‘ حکومت، معزز اداروں، معزز عدالتوں کو زیادتی کے بڑھتے ہوئے ناسور کو لگام ڈالنے کے لئے مل کر سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ضیاء الحق سے سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو ان کے مثبت اقدام پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس حولے سے ایک قانون بنایا جاسکتا ہے کہ زیادتی کے مرتکب افراد کو سر عام پھانسی دی جائے گی جب تک ہمارے ارباب اختیار معزز ادارے مل کر ملک و قوم کے تحفظ کے لئے ٹھوس فیصلے مضبوط قانون نہیں بنائیں گے تو اُس وقت تک پھرسی سی پی اولاہور کا بیان درست سمجھا جائے گا ہے کہ خواتین اور مرد حضرات بھی رات کوبارہ بجے کہ بعد گھر سے نا نکلیںکیونکہ ہم ایک بوسیدہ بانجھ نظام کے سائے میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اس نظام کو درست کرنے کی ہم میں صلاحیت موجود نہیں۔خدارااگر آپ اس قوم کو انصاف علاج روزگار تعلیم اپنی چھت مہیا نہیں کر سکتے تو اس قوم کی بہن بیٹی کو زیادتی کے کیسسز سے نجات دلاکر تحفظ دینے کی جرات ہی کر لیں۔۔۔۔۔
ہمارا بوسیدہ نظام
Sep 17, 2020