اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق اینٹی منی لانڈرنگ (دوسرا) ترمیمی بل سمیت سینٹ سے مسترد کئے گئے8 بل منظور کرا لئے۔ اپوزیشن عددی اکثریت کے باوجود پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی بلوں کی منظوری نہ روک سکی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں اسلام آباد دارالحکومت علاقہ جات وقف املاک بل 2020ئ، انسداد تطہیر زر (دوسری ترمیم) بل 2020ئ، فن مساحت و نقشہ کشی (ترمیمی) بل 2020ئ، عدالت عالیہ اسلام آباد (ترمیمی) بل 2019ئ، انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020ئ، پاکستان میڈیکل کمشن بل 2020ئ، میڈیکل ٹربیونل بل 2019ئ، دارالحکومت علاقہ جات معذوروں کے حقوق بل 2020ء کی منظوری دی گئی۔اپوزیشن نے اینٹی منی لانڈرنگ، انسداد دہشت گردی اور وقف املاک بل منظور ہونے پر واک آوٹ کیا تو حکومت نے اس کی غیر موجودگی میں مزید 5 بل منظور کرا لئے ۔ دونوں ایوانوں میں مجموعی طور پر اپوزیشن کے پاس حکومتی بنچوں سے 10 زیادہ ووٹ موجود ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی ارکان کی مجموعی تعداد 217 ہے جن میں سے 200 اجلاس میں شریک اور 16غیرحاضر تھے جب کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان کی مجموعی تعداد 226 ہے جن میں سے اپوزیشن کے 190 ارکان نے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی اور 36 غیر حاضر رہے۔ اپوزیشن کے 36 ارکان کی غیر حاضری کی وجہ سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی عددی اکثریت اقلیت میں تبدیل گئی اور 8 بلز منظور کئے گئے۔ اپوزیشن کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر جانبداری کا الزام عائد کیا گیا ہے اور بل پر ارکان کی گنتی میں ردوبدل کا الزام لگایا گیا ہے۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے دوران اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل2020، انسداد دہشت گردی تیسرا ترمیمی بل 2020، اسلام آباد ہائی کورٹ ترمیمی بل 2019 اور اسلام آباد وقف املاک بل 2020، سرویئنگ اینڈ میپنگ ترمیمی بل 2020 کثرت رائے سے منظور کرلئے گئے۔ حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے اراکین کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپوزیشن کے رکن اور حکومتی ارکان کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور بلاول بھی موجود تھے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سب سے پہلے ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے اسلام آباد وقف املاک بل 2020ء کی تحریک پیش کی گئی۔ تحریک کی حمایت میں 200 جبکہ مخالفت میں 190 ارکان نے ووٹ دیا۔ اپوزیشن کی تمام ترامیم کو مسترد کر دیا۔ اسلام آباد دارالحکومت علاقہ جات وقف املاک بل ایوان بالا سے مسترد ہونے کی وجہ سے مشترکہ اجلاس میں لایا گیا تھا۔ اپوزیشن اراکین بڑی تعداد میں سپیکر ڈائس کے قریب پہنچ گئے اور شدید نعرہ بازی شروع کردی۔ اپوزیشن کے ایک درجن کے قریب ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر لیا۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے بل کی کاپی پھاڑ کر سپیکر کی طرف پھینک دی۔ اپوزیشن کے شدید احتجاج اور مطالبے پر سپیکر نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو فلور دیدیا جس پر شاہ محمود قریشی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جس کی ترمیم ہے، اسے ہی بات کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اگر بلاول بھٹو کی کوئی ترمیم ہے تو ضرور بات کریں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے سپیکر نے کہا کہ رولز پڑھ لیں، اسی کے مطابق بولنے کا موقع دے رہا ہوں۔ بلاول بھٹو کو موقع فراہم نہ کرنے پر اپوزیشن ارکان نے دوبارہ شدید احتجاج شروع کر دیا۔ اپوزیشن لیڈر کو فلور دینے پر حکومتی ارکان نے اعتراض کیا۔ بابر اعوان نے قومی اسمبلی کا رولز 131 پڑھ کر سنایا اور کہا کہ کسی بھی بل کی منظوری میں ترمیم جمع کرانے والے ممبر کے علاوہ کوئی اور ممبر بات نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اینٹی منی لانڈرنگ دوسرا ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی نے اس کیخلاف ترمیم پیش کی اور کہا جس طرح اجلاس چلایا جا رہا ہے، اس سے ہاؤس کی عزت نہیں ہو رہی۔ ہمیں بولنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ بل سے متعلق ہماری 10 سے 12 ترامیم ہیں۔ اپوزیشن خصوصاً چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو بات کرنے کا موقع نہ دینے کیخلاف حزب اختلاف تمام ممبرز نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔ انسداد منی لانڈرنگ دوسری ترمیم بل 2020ء کے تحت اس میں ملوث افراد کو دس سال تک قید اور اڑھائی کروڑ جرمانہ ہو سکے گا۔ بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کی املاک بھی ضبط کی جا سکیں گی۔ اگر کوئی قانونی فرم کا ڈائریکٹر، افسر یا ملازم بھی منی لانڈرنگ میں ملوث ہوا، اْسے بھی دس سال تک قید ہوگی۔ انسداد منی لانڈرنگ کا قانون بننے کے بعد تیس دن میں حکومت قومی مجلس عاملہ تشکیل دے گی۔ نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کے سال میں دو اجلاس منعقد ہونگے۔کمیٹی ایکٹ موثر اطلاق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں مالی معاونت کی روک تھام کے لیے قومی پالیسی تشکیل دے گی۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں مالی معاونت کی روک تھام کے لیے سفارشات وضع کرے گی۔ اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے انضباطی اتھارٹی بھی بنے گی۔ سیکرٹری خزانہ کی سربراہی میں ایک جنرل کمیٹی بھی بنے گی جو پندرہ اراکین پر مشتمل ہوگی۔ سینیٹر رضا ربانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کے مشیر وفاقی وزیر کے برابر عہدہ رکھ سکتے ہیں تاہم ایگزیکٹو کا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ مشیر اور معاون خصوصی ایوان میں تحریک اور بل پیش نہیں کر سکتے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ درست ہے کہ پانچ مشیروں کے پاس آئین میں رعایت ہے کہ وہ ایوان میں بیٹھ سکتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دے سکتے اور وہ حکومت کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ بابر اعوان وزیراعظم کے مشیر ہیں۔ آئین کے مطابق ایوان میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ معاونین خصوصی سے متعلق ہے۔ عدالتی فیصلے میں کوئی پابندی نہیں لگائی گئی کہ یہ بل پیش نہیں کر سکتے۔ اپوزیشن کی طرف سے سینیٹر محمد مشتاق کی پیش کردہ ترامیم مسترد کر دی گئیں جبکہ حکومت کی طرف سے کنول شوذب کی ترامیم منظور کرلی گئیں۔ تمام بل بابر اعوان کی طرف سے ایوان میں پیش کئے گئے۔ بعد ازاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ اس سے قبل سینٹ میں انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2020ء مسترد کر دیا گیا تھا۔ بل کے حق میں 31 اور مخالفت میں 34 ووٹ آئے۔ سینٹ اجلاس میں انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2020ء کیلئے تحریک سینیٹر سجاد طوری کی جانب سے پیش کی گئی جس پر ایوان کی جانب سے تحریک پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اپوزیشن اراکین نے انسداد دہشتگردی ایکٹ تیسرے ترمیمی بل 2020ء پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے بل کی منظوری کے لیے ووٹنگ شروع کرائی تو بل کے حق میں 31 اور مخالفت میں 34 ووٹ آئے۔ سینٹ کا اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ قبل ازیں ایوان بالا کی مجلس قائمہ برائے داخلہ 15 ستمبر 2020ء کو سینٹ اجلاس میں متعارف کرائے گئے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2020ء کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) بظاہر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن اکثریت میں ہونے کے باوجود سینٹ سے مسترد کئے گئے بلوں کی منظوری میں رکاوٹ نہیں ڈال سکی لیکن پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے دعویٰ کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 197تھی جسے سپیکر نے 190بتایا جبکہ حکومت کے ارکان کی تعداد 187تھی جسے انہوں نے 200بنا دیا۔ اپوزیشن ارکان نے سپیکر کی ڈائس کا گھیرائو بھی کئے رکھا اور بلوں کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں لہر ادیں۔ اپوزیشن ارکان نے" ووٹ کو عزت دو" جبکہ حکومتی ارکان نے جواباً"ووٹ کو ڈنڈا دو" اور این آر او نہیں ملے گا" کے نعرے لگائے۔ بلاول بھٹو زرداری کو بات کرنے کی اجازت دینے کی مخالفت کرنے پر پیپلز پارٹی ارکان نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے "لوٹا لوٹا ـ"کے نعرے لگائے۔ حکومت نے اپوزیشن کے بائیکاٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سینٹ سے مسترد ہونے والے مزید4بل ضمنی ایجنڈا میں شامل کر کے منظور کروائے۔ بدھ کوپارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ13منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے سینٹ سے مسترد ہونے والا اسلام آباد دارلحکومت علاقہ جات وقف املاک بل2020 پیش کرنے کی تحریک پیش کی، ایوان میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب تحریک کے حق میں کھڑے بی این پی مینگل کے رکن اپوزیشن کے کہنے پر بیٹھ گئے، اس دوران حکومتی ارکان مذکورہ رکن کے پاس گئے جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور سپیکر سے مطالبہ کیا کہ حکومتی ارکان کو روکا جائے۔ اپوزیشن اور حکومت ارکان کے درمیان ہاتھا پائی کی نوبت آگئی بی این پی مینگل کا رکن ایوان سے واک آئوٹ کر گیا۔تحریک پر ووٹنگ کے دوران حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی۔ جماعت اسلامی کے رکن سینیٹر مشتاق کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ ایوان سے واک آؤٹ کرگئی۔ ایف اے ٹی ایف سے متعلق 3 قوانین کے علاوہ دیگر 5 بل بھی منظور کر لئے۔