واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ) امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے کے قابل بنایا کیونکہ اس نے پاکستان کی حمایت کی تھی جس نے اس وقت کی امریکی حکومت کی طرف سے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کی درخواست پر تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کیا تھا۔ کراچی میں پیدا ہونے والے میری لینڈ کے ڈیموکریٹ سینیٹر نے افغانستان سے امریکی انخلا پر سینٹ کی پہلی سماعت میں دلیل دی کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں 'انتشار اور خانہ جنگی کو روکے'۔ سینٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی سماعت گزشتہ روز ہوئی جس میں کچھ ریپبلکن قانون سازوں نے بائیڈن انتظامیہ کو افراتفری کا ذمہ دار ٹھہرایا اور طالبان کے قبضے کا بھی، جو گزشتہ ماہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ہوا۔ دیگر ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں نے ہی 20 سال کی جنگ کے دوران افغان طالبان کی مبینہ حمایت پر پاکستان کو نشانہ بنایا۔ ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر وان ہولن نے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کے ساتھ بات چیت کی، جو مرکزی گواہ تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ 'کیا یہ حقیقت نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی حکومت سے کہا کہ تھا کہ وہ اس عمل کے ایک حصے کے طور پر تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کرے'۔ انٹونی بلنکن نے جواب دیا کہ 'یہ درست ہے'۔ سینیٹر وان ہولن نے عبدالغنی برادر کے رہا ہونے والوں میں شامل ہونے، دوحہ مذاکرات میں سابق افغان حکومت کو شامل نہ کرنے اور ان پر 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے، وغیرہ جیسے کئی سوالات پوچھے جس پر انٹونی بلنکن نے جواب دیا کہ 'یہ درست ہے'۔ امریکی سینیٹر نے اس معاہدے کو بھی اٹھایا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی افواج مئی تک نکل جائیں گی اور ان پر حملہ نہیں کیا جائے گا لیکن افغان فورسز پر حملہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے جس پر انٹونی بلنکن نے کہا کہ وہ درست ہیں۔ سینیٹر وان ہولن نے کہا کہ 'افغانستان میں ایک کہاوت ہے پارٹنرز کے پاس گھڑیاں ہیں، ہمارے پاس وقت ہے۔ چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس مذاکرات کے ذریعے طالبان کے لیے سب کچھ ترتیب دیا، افغان فورسز پر حملے کے لیے گرین سگنل دیا، کوئی بات چیت آگے نہیں بڑھی'۔ انٹونی بلنکن نے جواب دیا کہ 'میرا یقین ہے کہ یہ درست ہے'۔ سینیٹر وان ہولن نے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کو یاد دلایا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر جو بائیڈن پر بھی مئی تک افواج نہ نکالنے پر تنقید کی تھی جیسا کہ امریکا طالبان معاہدے میں طے پایا تھا'۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بائیڈن انتظامیہ نے اب پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک میز پر رکھا ہے کیونکہ علاقائی پلیئرز کو شامل کیے بغیر افغان تنازع حل نہیں ہو سکتا۔ کچھ قانون سازوں کی پاکستان اور جو بائیڈن انتظامیہ دونوں کے خلاف دشمنی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے وہی بات دہرائی جو ایک اور سینیٹر جین شاہین نے پہلے کہا تھا کہ 'اس کانگریس میں منافقت کی سطح حیران کن ہے'۔ تاہم انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکا، چین، روس اور پاکستان جیسے ممالک سے آگاہ ہے جو افغانستان کی صورت حال کو حل کرنے کی کوشش میں اہم ہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب مینینڈیز نے مشاہدہ کیا کہ طالبان اب افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں لہٰذا عالمی برادری کو کسی نہ کسی شکل میں اس سے نمٹنا ہو گا۔ انہوں نے سینٹ سے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے قبل عائد پابندیاں دوبارہ لگانے پر زور دیا۔ کمیٹی کے سینئر ریپبلکن سینیٹر جیمز ریش نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہے تاہم خبردار کیا کہ 'یہ کانگریس کی وسیع مشاورت کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اس پورے معاملے میں پاکستان کے کردار کو بھی سمجھنا چاہیے۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان کی بھی طالبان سے وہی توقعات ہیں جو عالمی برادری اور امریکا کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ تمام دھڑوں پر مشتمل افغان حکومت کی بات کی۔ خواتین اور اقلیتوں کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔