قصے کہانیوں سے شارک ڈوڈوکا سفر

گلوکار ابرارالحق نے پاکستان تحریک انصاف کی تین سالہ کارکردگی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے دور حاضر کی ماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب ہم بچے تھے تو ہمیں ماؤں سے کلمہ سننے کو ملتا تھا لیکن آج کے بچے کو ماں فون دے دیتی ہے اور اس پر لگا ہوتا ہے ’’بے بی شارک ڈوڈو بے بی شارک‘‘۔ تو بس پھر کیا ہوا کہ دنیا بھر میں 9 ارب سے زائد مرتبہ دیکھا جانے والا بے بی شارک پاکستان میں کافی تنازع کھڑا کرنے کا باعث بنا۔ قارئین افراتفری کے اس دور میں سب سے مشکل ترین کام بچوں کی پرورش کرنا ہے۔ ماں باپ دونوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق وہ اپنے بچے کی تربیت بہترین خطوط پر کریں تاکہ وہ آگے چل کر معاشرے میں مثبت شہری کا کردار ادا کر سکیں۔ انہیں ابتدائی عمر سے ہی اچھے برے کا فرق سمجھایا جائے تو وہ مضبوط شخصیت کے مالک بنتے ہیں۔ آج کل والدین خود شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ انکے بچے نافرمان ہوتے جا رہے ہیں۔وہ من مانی کرتے ہیں، بڑوں کا ادب نہیں کرتے، کسی کی بات نہیں مانتے اور نہ ہی کسی کی نصیحت کو اہمیت دیتے ہیں۔اگر والدین اپنی روزمرہ زندگی کا جائزہ لیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ بچوں کو خودسر اور منہ زور بنانے کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔تربیت کے زمرے میں باپ سے کئی زیادہ کریڈٹ ماں کو جاتا ہے۔ میرے نزدیک کم سنی کا جتنا بھی دورانیہ ہوتا ہے تب تک بچوں کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پیدائش کے بعد انسان 2 سے 3 سال تک اپنے والدین پر انحصار کرتا ہے خصوصاً ماں کی عدم موجودگی یا کوئی غفلت بچے کے دماغ پر گہرے منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں تیز تر سائنسی پیش رفت کی بدولت چونکہ اب پرورش کے معیار بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تربیت کے حوالے سے 100 میں سے 40 فیصد مائیں بچوں کی نشوونما سے زیادہ خود کو وقت دینا پسند کرتی ہیں۔صفائی ستھرائی پر ملازمہ کو لگا کر، بچوں کو نام نہاد مونٹیسوریوں کے سپرد کرکے، کھانا چولہے کی نذر کرکے سوشل میڈیا پر مشغول ہو جاتی ہیں۔  ڈے کیئر سنٹر میں بچہ کس حال میں ہے، ملازمہ سفید کر رہی ہے یا سیاہ، کھانا جل کر کوئلہ ہو گیا کچھ خبر نہیں۔ دوسری جانب باپ کے پاس ٹائم ہی نہیں کہ گھر کے حالات کا جائزہ لے۔ وہ تو بچوں کا دل بہلانے کیلئے بچوں کی ضد پوری کر دیتا ہے اس بات سے بیخبر کہ وہ بچوں کیلئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ ۔ آج کا باپ خود موبائل سے نظر اٹھائے گا تو دیکھے گا۔یہ سچ ہے کہ اسمارٹ فون پر پرورش پانے والے بچوں کی یاداشت اس لیول کی نہیں ہے جیسا کہ 30 سے 35 سال قبل پرورش پانے والے بچوں کی ہوا کرتی تھی۔ جب معاشرہ اتنا گھٹن زدہ نہیں تھا۔ بچے بلا خوف و خطر اپنا بچپن انجوائے کرتے تھے۔ رشتوں میں دراڑیں نہیں تھیں۔ آلودگی نہ ہونے کے باعث خوراک سادہ اور آب و ہوا صحت بخش تھی۔ بچے شام ڈھلتے اپنے بڑوں،بزرگوں سے تاریخ کے دلچسپ قصے، حکایات، بہادری کے کارنامے، سبق آموز کہانیاں سننے بیٹھ جاتے تھے۔ انہی کہانیوں کے تناظر میں بچوں کی ذہنی وسعت کے مطابق تجسّس سے لبریز سوالات کا سیشن بھی ہوتا تھا۔ آج بھی ان حالات میں پرورش پانے والوں کو اپنے بچپن کے واقعات ازبر ہیں کیونکہ ان میں بڑوں کی محبت کی چاشنی اور ثقافت کا رنگ نمایاں تھا۔اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے مشکلات صرف اس باعث پیش آ رہی ہیں کہ پہلے پہل والدین کے پاس اسمارٹ فون نہیں تھے۔ میرے نزدیک والدین چاہے 35 سال پہلے کے ہوں یا 2021 کے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قدرت نے جو انہیں عظیم الشان پروجیکٹ دیا ہے اس سے آنکھ نہیں چرا سکتے۔ بس غفلت نے انہیں گھیر لیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی موجودگی میں بچوں کی تربیت کے نئے ڈھنگ سیکھئے جو گفت وشنید پر مبنی ہوں۔ بچوں کے سوالات کا احسن طریقے سے جواب دیا جائے۔میرے خیال میں 2021 کے والدین پر دوگنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہیں قدیم روایات اور جدید تقاضوں کو اب ساتھ لیکر چلنا ہو گا۔ والدین اپنے آپکو اپ ٹو ڈیٹ رکھیں کہ انٹرنیٹ پر بچوں کے نغمے،کارٹون کس نوعیت کے ہیں۔ پرانے طریقوں کو خیر آباد کہہ کر نئے طریقے نہ اپنانے والے والدین کیلئے لمحہِ فکریہ ہے۔ ایسے میں بچوں کی ذہنی تربیت میں گڑبڑ کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ ابراراحق کی ایک بات سے اتفاق کروں گی کہ گزرے وقتوں میں مائیں رات کے وقت بچوں کو قرآن کا رکوع یا چھوٹی سورتیں یاد کروا کر سوتی تھیں یا لوریاں سناتی تھیں۔ واقعی آج کل یہ روایت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ بچوں کو اسمارٹ فون کے بغیر نیند نہیں آتی حقیقتاً قصور براہ راست ماؤں کا ہے۔ رہی بات شارک ڈو ڈو کی تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ 21 ویں صدی کے تیز ترین دور میں اگر بچوں کو 19 صدی کے رواج سے روشناس کراتے رہیں گے تو انہیں زمانہ ساز کیسے بنائیں گے۔ ہم اقوامِ عالم کے ساتھ کیسے کھڑے ہوں گے؟

ای پیپر دی نیشن