عائلی معاملات، ریاست کہاں ہے ؟

میں معزز جج کو سفارش کیسے کروں میں کون ہوتا ہوں عدلیہ کے معاملات میں رائے دینے والا۔اگر رائے دوں بھی تو میری کون سنے گا ۔ میں تو یہ لکھتے ہوئے بھی محتاط ہوں کہ انصاف میں تاخیر ہی سب سے بڑی ناانصافی ہے ۔ بعض مقدمات میں تواعلی عدلیہ وقت کا تعین کر کے پابند کردیتی ہے کہ مذکورہ کیس کا مقررہ وقت میں ہرصورت فیصلہ کرنا ہے مگر یہاں تو وقت کے پابند مقدمات ہی ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہوچکے ہیں ،فائلوں کا پلندہ لئے ملتان ڈویژن کے ایک ضلع سے اپنے چار بچوں سمیت نوائے وقت کے دفتر میں آنیوالی خاتون میری سامنے بیٹھی اپنے دکھڑے سنا رہی ہے اور میں بے بس بیٹھا ہوں ۔یہ خاتون بھی اُن ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں سے ایک ہے جن کے خاوند بچے پیدا کرکے دوسری شادیاں رچا کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔نہ تو طلاق دیتے ہیں اور نہ ہی نان و نفقہ ۔ اس خاتون کے چار بچوں کے نان ونفقے اور طلاق کا فیصلہ چار سال سات مہینے میں ہوا حالانکہ یہ تین ماہ میں ہوسکتاتھا ۔ عدالت نے اس مہنگائی کے دور میں بچوں کا خرچہ 1800 روپے فی بچہ مقرر کیا ہے اور جس نے خرچہ دینا ہے وہ اچھا خاصا صاحب حیثیت اور نئے ماڈل کی بسوں کا مالک ہے جبکہ خاتون کے پاس نہ تعلیم اور نہ کوئی ذریعۂ معاش ۔ اب صورتحال یوں ہے کہ چار بچوں کا ماہانہ خرچہ جو صرف 7200 بنتا ہے وہ بھی بچوںکا والد نہیں دے رہا اور کئی کئی ماہ بعد ادائیگی کرتا ہے ۔
اس طرح کے معاملات آئے روزدیکھنے کو ملتے ہیں۔ میں نے آج تک نہیں سنا کہ کوئی رکن اسمبلی ، کوئی وزیر ، افسر شاہی کا کوئی نمائندہ ، کوئی حکمران ،کوئی عالمِ دین یا کسی بھی حوالے سے معاشرے میں اپنااثر اور بااختیار کسی بھی شخصنے شاید ہی اس صورتحال کی سنگینی کیلئے آواز اُٹھائی ہو۔ خواتین اراکین اسمبلی کی تعداد سینکڑوں میں ہوچکی ہے ،کبھی ان خواتین میں سے چند ایک نے ٹوٹ پھوٹ کا شکار فیملی سسٹم بارے میں قانون سازی کے حوالے سے کوئی پیشرفت کی ہو ؟
 قرآن مجید میں تفصیل سے خاندانی اُمور پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسمبلیوں میں یا نفاذِ شریعت کے حوالے سے قائم اداروں میں کبھی ان اُمور پر کوئی سنجیدہ پیشرفت کی گئی ہو کہ طلاق یافتہ خواتین اور انکے بچوں کی کفالت کا نظام کیسے وضع ہو ۔ قرآن پاک میں تو واضح الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اسکے باپ کی ہے جب یہ لاکھوں والد اپنی ذمہ داریاں کیوں ادا نہیںکررہے اور اس بارے میں قانون فوری اور کڑی سزائیں کیوں نہیں دیتا؟کیا کبھی کسی با رسوخ ، بااثر یا بااختیار نے ازخود یہ دیکھا کہ فیملی کورٹس میں کس قسم کے غیر اخلاقی الزامات عائد ہوتے ہیں ۔ کس طرح معصوم بچوں کے سامنے انکی ماؤں کی انا کو کُچلا جاتا ہے۔ رہا معاملہ ریاست کا ،اس کے بدقسمت ارباب اختیار کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ خواتین جنہیں بچوں سمیت انکے خاوند چھوڑ جاتے ہیں عدالتوں سے انصاف لینے کیلئے وکیل کی فیس وہ کہاں سے اور کیسے ادا کرتی ہیں ؟مگر سالہا سال سے حکمرانی کرنے اور اختیارات انجوائے کرنیوالوں کی اکثریت کو بنائے ہوئے پیسے لٹانے اور لوٹی ہوئی دولت کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے سے فرصت ہو تو اس بارے سوچیں۔
سرگودھا ڈویژن کے ایک اعلیٰ آفیسر کی بیٹی ایک وکیل سے بیاہی گئی۔ مذکورہ وکیل کا چچا بھی معروف وکیل تھا اور نوجوان وکیل کی حیثیت محض بڑے وکیلوں کے منشی سے زیادہ نہ تھی ۔ نازو نعم سے پلی ہوئی لڑکی پر آئے روز کے تشدد اور اخراجات کی قلت نے اسے اتنا بدظن کردیا کہ ایک دن وہ اپنے والد سے کہنے لگی کہ مجھے زہر لادیں یا طلاق دلوا دیں، ان دونوں میں سے کوئی ایک کام کردیں۔گو کہ وہ ایک بیٹے کی ماں بن چکی تھی ۔ عدالت میں خلع کا دعویٰ دائر کیا گیا اور ابتدائی پیشیوںکے دوران ہی لاہور ہائیکورٹ نے خلع کے اس مقدمے کیخلاف حکم امتناعی جاری کردیا۔ اس قسم کا حکم امتناعی سینئر ترین وکلاء کے مطابق پہلی بار دیکھا گیا تھا کہ خلع تو عورت کا بنیادی حق ہے اور دین اسکی اجازت دیتا ہے مگرآج سے تقریباً 25 سال قبل اس قسم کا حکم امتناعی جاری ہو گیا ۔ یقیناً اسلامی تعلیمات سے استفادہ نہیں کیا گیاہو گا۔مجھے یاد ہے تین سال حکم امتناعی کی وجہ سے سرگودھا کی فیملی کورٹ میں کیس لٹکا رہا۔ آئے روز پنچائیتیں ہوتیں مگربے سود۔ ایک دن مذکورہ وکیل کے گھر پنچائیت جاری تھی کہ ایک چھوٹی سی بچی بھاگتی ہوئی آئی اور مذکورہ وکیل کی گود میں بیٹھ گئی ۔ پنچائیت میں سے ایک شخص نے سوال کیا یہ آپکی بیٹی ہے ۔ اثبات میں جواب ملنے کے بعد دوسرا سوال کیا کہ آپکے کتنے بچے ہیں۔ جواب میں مذکورہ وکیل نے کہا میری بیٹیاں ہی ہیں اولادِ نرنیہ نہیں بس اللہ کا مال ہے ۔اس پر عدالتوں میں دھکے کھا کر تنگ آنیوالے اس بچی کے باپ نے کہا میری بھی صرف بیٹیاں ہی ہیں اور آپکی بھی، فرق صرف اتنا ہے کہ میری جوان ہیں اور آپکی کم سن ۔ میں فیصلہ اللہ پر چھوڑتے ہوئے واپس جارہا ہوں۔ جو آج میرے ساتھ ہورہا ہے اللہ نہ کرے کل آپکے ساتھ بھی ہو ۔ یہ کہہ کر اس بچی کا باپ آنکھوں میں آنسو لئے پنچائیت چھوڑ کر چلا گیا ۔ٹھیک تین دن بعد حکم امتناعی واپس لے لیا گیا اور پھر خلع کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی منشی نما نوجوان وکیل نے طلاق کے کاغذات پر دستخط کردئیے اور خلع کی نوبت ہی نہ آئی ۔ یہ الگ بات ہے جہیز کا سامان تو ڑ پھوڑ کر واپس بھجوایا گیا مگر انسانی زندگی میںسامان کی کیا وقعت ۔نجانے کس نے یہ جُملہ پہلی بار لکھا یا بولا کہ ’’عدالتوں کے جذبات نہیں ہوتے ۔ عدالت صرف اور صرف دستیاب حقائق کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہے ۔ ‘‘ میرا ضمنی سا سوال کہ عدالت سے وابستہ لوگوں کی اولادیں نہیں ہوتیں ۔ میں جہاں بیٹھ کر یہ کالم لکھ کر رہا ہوں اسی شہر کی ایک لڑکی کے ساتھ اسی شہر کے ایک مصنف نے دوسری شادی رچائی مگر چھ ماہ بعد پہلی بیوی اور بچوں کے دباؤ پر طلاق دیدی ۔ اب مذکورہ منصف کیخلاف خاتون نکاح نامے میں درج سامان کے حصول کیلئے مختلف شہروں کی عدالتوںکے مابین شٹل کاک بنی ہوئی ہے۔آج تو صرف طلاق یافتہ خواتین پر قلم اُٹھایا ہے اگر کبھی اسکے اخلاقی اور معاشرتی نتائج پر قلم اُٹھانا پڑا تو پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر اب یہاں کتاب نہیں کباب بکتے ہیں اور قلم کی جگہ کباب کی سیخوں نے لے لی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...