ناقصاں راپیرکامل کاملاں رارہنما 

Sep 17, 2022

 حضرت داتا گنج بخش کے عرس کا انعقاد درحقیقت انکی ان خدمات کا اعتراف ہے جو انہوں نے اسلام کی سربلندی اور احیا کے لئے سرانجام دیں ۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ سرہندی فرماتے ہیں کہ یہ شہر لاہور ہندوستان کے تمام شہروں میں قطب ارشاد کی طرح ہے۔ لاہور کی فضاوں کو خود پرناز ہے کہ یہاں ایک ایسا ولی سویا ہوا ہے کہ جن کے فیض کا سرچشمہ انکی زندگی میں بھی جاری رہا اور بعد میں بھی جاری ہے ۔ممتاز مفتی جہاں تصوف اور روحانیت کا ذکرکرتا ہے وہاں اسی حوالے سے قدرت اللہ شہاب اور داتا صاحب کا ایک روحانی تعلق جوڑتا ہے اور کہتا ہے کہ تمام نظامہائے زندگی کے متوازی ایک روحانی نظام بھی چلتا رہتا ہے۔ صوفیا کی یہ سنت رہی ہے کہ انہوں نے اسلام کے احیاءکے لئے کئی سفر کیے۔ داتا صاحب نے بھی کئی سفرکئے اور اپنی تبلیغ سے نہ صرف لوگوں کودائرہ اسلام میں داخل کیا بلکہ انکے معتقیدین نے بھی تبلیغ اسلام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔انکی تعلیمات نے کتنے دلوں سے کفرکے تالے توڑے۔ ڈاکٹر اظہر وحید نے داتا صاحب کی تصنیف کو نہ صرف پڑھا بلکہ کشف المحجوب کی تشریح کرکے اسے سادہ اور عام فہم بنادیا ۔ وہ داتاصاحب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا کہ رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اورجب جاہل ان سے کلام کرتے ہیں تووہ کہتے ہیں سلامتی ہو ۔ حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ جس نے اہل تصوف کی آواز سنی اوران کی پکار پر لبیک نہ کہا اللہ کے نزدیک اسکاشمار غافلوں میں ہوگا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ مشائح میں سے کسی نے کہاتھاکہ جسے محبت صاف کرے وہ صافی ہے اور جسے محبوب صاف کرے وہ صوفی ہے ۔ جب جناب حارثہ ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے تو آپﷺ نے پوچھا اے حارثہ تیری صبح کس طرح ہوئی ۔ انہوں نے کہا میں نے سچے مومن کی طرح صبح کی ،آپ ﷺ نے فرمایا اے حارثہ دیکھ لو ذراکیاکہہ رہے ہو ۔ہرشے کی ایک حقیقت ہوتی ہے تمھارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ۔ جناب حارثہ نے کہاکہ میں نے اپنے نفس کو دنیاسے جدا کردیا۔ یہاں تک کہ جوزمین میرے نزدیک اسکاپتھراسکاسونا اسکی چاندی اور اسکی مٹی کاڈھیلہ برابر ہوگئے ہیں ایک کہاوت ہے کہ دواشخاس پرجب گناہوں کابوجھ بڑھ گیاتوانہوں نے کہاکہ اب ہمارے جسم اور ہاتھ تھک چکے ہیں کہ ہم گناہوں کا بوجھ سہار سکیں ہمارے ہاتھ اب شل ہوچکے ہیں کیوں نہ ہم زبان سے چاٹ کر نفس کی چاردیواری کوگرادیں۔وہ ساری رات دیوار کوچاٹتے رہے ان میں سے ایک کی قوت ارادی جواب دے گئی اور اسے نیند نے آلیا دیوار پتلی ہوگئی عین ممکن تھا کہ دیوار گرجاتی۔ دوسرے شخص کو بھی نیند آ گئی۔ ان دونوں کی قوت ارادی کی دیوارکمزور ہوتے ہی جس دیوار کو انہوں نے چاٹ کرکمزورکیاتھا موٹی ہوتی چلی گئی ۔داتا صاحب کی مکمل تعلیما ت کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ان کے نزدیک جب تک بندہ نفس اور خواہشات کے چنگل سے نہیں نکل پاتا ہے معرفت تک نہیں پہنچ پاتا اورمعرفت اور محبت ہم معنی ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بالک نے گروسے پوچھا کہ یہ محبت کافلسفہ کیاہے گرونے کہا تم کل علی الصبح میرے پاس آنا میں تمھیں بتاو¿ں گاکہ محبت کیا ہے۔ دوسری صبح گرو نے دور سے اشارہ کیا اور کہا کہ وہ دیکھ دن کانکلنا اگرحقیقت ہے تو پرندوں کو چہچہانا محبت ہے۔ ربوبیت سے محبت کااظہار ہے اپنے اندروہ اجالا پیدا کرکہ امن سکون اور راحت کے پرندے تیرے اندرگنگناتے رہیں ۔شاہ ولی اللہ نے اصلاح احوال کے لئے وہاں کے امراءاور علما کو خط لکھے ۔جبکہ داتا صاحب فرماتے ہیں کہ ملک کابگاڑتین گروہوں کے بگڑنے پر ہے حکمران جب بے عمل ہوجائیں توانکی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ایک ریاست کاحکمران جب سیرکے ارادے سے باہرنکلاتو اس نے دیکھاکہ ایک دیوانہ مشت خاک سرمیں ڈال رہاہے۔ حکمران نے دیوانے سے پوچھاکہ یہ کیاکرتا ہے اس نے خاک اٹھاکر حکمران پرڈالی اور کہاکہ تو جوزمین پراکڑ کرچلتاہے اورلوگوں کوکمتر سمجھتاہے۔ کیاتواپنی پیدائش کوبھول گیاکہ توبھی ایک حقیر نطفے سے پیداکیا گیا۔ اس پر حکمران کوغصہ آگیااوراسنے کہاکہ جلادکوبلاکراسے قتل کردو وزیرنےکہا جانے دیں جناب دیوانہ ہے۔اس واقعے کودودن ہی گزرے تھے کہ حکمران کے انداز میں تبدیلی آگئی ۔ایک رات وزیرنے حقیقت جاننے کے لئے حکمران کے دروازے کے باہرکان لگائے تووہ گریہ زاری میں مصروف تھا اور کہہ رہاتھاانسان تو اپنی پیدائش بھول گیا جبکہ تو حقیرنظفے سے پیداکیاگیا ۔وزیر جان گیا کہ حکمران کے دل پربوجھ ہے۔
 اگلے دن حکمران دربار میں آیا تو سادہ لباس میں تھا ۔ وزیرنے پوچھا نصیب دشمنان کیامسئلہ لاحق ہے ۔ توحکمران نے کہا ہم اس حکومت کے حقدار نہیں کیونکہ ہم نے ظلم کوفروغ دیا ،اس پر وزیر نے کہاکہ اگر آپ کو رب نے تلافی کا موقع دیا ہے توعوام کی خدمت کرکے رعایا کے دل جیت لیں۔دا تا صاحب کی تعلیمات کایہی نچوڑہے ۔ اصلا ح کے دروازے کھول کے صالح معاشرے کی بنیاد رکھنا۔ 

مزیدخبریں