اپنے فخر کی حفاظت کیجئے

Sep 17, 2022


گزشتہ برس نیشنل میڈیا ورکشاپ کے شرکاء  کے ساتھ  ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے غیر رسمی گفتگو کے دوران پاک فوج کے مختلف شعبوں اور ذیلی اداروں کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے آرمی میڈیکل کالج سمیت پاک فوج کے زیرانتظام چلنے والے دیگر طبی اداروں کی کارکردگی اور دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کرنے پر فخر کا اظہار کیا۔ انہیں ملک و قوم کی ترقی اورفلاح کے لئے پاک فوج کی بہترین خدمات میں سے ایک قرار دیا تھا، ملک میں قدرتی آفات اور بڑے سانحات کے دوارن میڈیکل کور کے ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف ہمیشہ ہراول دستے کے طور پر فرائض انجام دیتے ہیں اس کے علاوہ پاک فوج کے ڈاکٹروں کی اقوام متحدہ کے امن مشنز میں خدمات بھی دنیا بھر میں سراہی جاتی ہیں ۔ آرمی چیف کا اپنے طبی اداروں پر فخر بلاشبہ پاک فوج کی مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے تاہم یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ  اتحادی حکومت نے پاک آرمی کا یہ فخر خطرے میں ڈال دیا ۔ اس کی تفصیل  میں جانے سے پہلے وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کی حالیہ پریس کانفرنس کا ذکر کرنا ضروری ہے جس میں انہوں نے بڑے افتخار سے یہ اعلان کیا کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) کو ختم کر دیا ہے ۔ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلوں کے لئے بنیادی اہلیت کا معیار بھی انتہائی کم کر دیا ہے جس کے بعد اب ایف ایس سی میں 45 فیصد نمبر حاصل کرنے والے طالبعلم بھی میڈیکل کالجوں میں داخلہ کے اہل ہوں گے۔ پہلے اہلیت کا یہ معیار میڈیکل طلبہ کے لئے 65 فیصد جبکہ ڈینٹل کے لئے 55 فیصد تھا جس کو 10 فیصد گرا کر میڈیکل کے لئے 55 اور ڈینٹل کے لئے 55 فیصد کر دیا گیا ہے، اس سے نقصان یہ ہو گا کہ جس سیٹ پر پہلے پانچ طلبہ میں مقابلہ ہوتا تھا اب وہاں بیس طلبہ ایک سیٹ کے لئے کوالیفائی کر جائیں گے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ نجی میڈیل کالجز منہ مانگے داموں سیٹیں فروخت کریں گے اور یوں نہ صرف پاکستان میں میڈیکل تعلیم کا معیار گر جائے گا بلکہ عالمی ادارے سے الحاق کے دروازے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔ چونکہ انسانی صحت کا معاملہ انتہائی اہم ہوتا اس لئے پوری دنیا میں طب کے شعبہ میں بہترین دماغ چنے جاتے ہیں۔ پاکستان  میں داخلوں کی اہلیت کا یہ معیار انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے گرا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے ملک بھر کے تمام کالجز کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد داخلوں کی اہلیت کا آن لائن نظام متعارف کروایا تھا جس میں کہیں بھی مداخلت نہیں ہو سکتی تھی لیکن اب پھر وہی پرانا مینیوئل طریقہ کار واپس لایا گیا ہے تاکہ نجی کالجز اپنی مرضی سے داخلے کر سکیں اور پیسے کام سکیں اس کے نتیجے میں چاہے طبی تعلیم کا شعبہ تباہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔  پی ٹی آئی حکومت نے طبی تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لئے جو چند اہم اقدامات اٹھائے ان میں پاکستان کو ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن (ڈبلیو ایف ایم ای) کے ساتھ الحاق کا اقدام بھی شامل تھا لیکن  اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس الحاق کے عمل کو نشانہ بنایا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں طبی تعلیم کا شعبہ تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چونکہ ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن (ڈبلیو ایف ایم ای) دنیا بھر میں معیاری طبی تعلیم کا نگران عالمی ادارہ ہے جس کے پاس تمام ترقی یافتہ ممالک طبی تعلیم سے متعلقہ ریگولیٹری باڈیز رجسٹرڈ ہیں اس میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بہت بڑی معیشت ہونے کے باوجود اس شعبے میں ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکا لیکن پاکستان اس الحاق سے ایک برس کی دوری پر ہے،  وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کا کہنا ہے کہ ہمیں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے کی بجائے افغانستان، سری لنکا ور بھوٹان جیسے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیکل کالجز میں داخلوں کے لئے کمپیوٹرائزڈ سسٹم نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ہم اس کے اہل نہیں ہیں۔ سابقہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے عالمی ادارے ڈبلیو ایف ایم ای کے ساتھ الحاق کا یہ عمل شروع کیا تھا لیکن داخلوں کی اہلیت کے کم معیار، میڈیکل قوانین میں مناسب تبدیلیاں اور کالجز میں پڑھایاجانے والے نصاب میں جدت سمیت دیگر بنیادی شرائط پر عمل درآمد نہ ہو سکنے کی وجہ سے یہ عمل برس ہا برس سے تعطل کا شکار تھا، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس شعبے میں بھی اصلاحات کیں، پی ایم ڈی سی میں بیٹھے کرپٹ عناصر کے خلاف انکوائری کروائی گئی، کرپشن، اقرباء  پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے جرائم ثابت ہونے پر ان کرپٹ عناصر کو گھر بھیج دیا گیا، ان تمام حقائق سے اسلام آباد ہائیکورٹ بھی آگاہ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کر کے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے نام سے نئی ریگولیٹری باڈی تشکیل دی، ڈبلیو ایف ایم ای کی شرائط پر عمل درآمد کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے، عالمی ادارے کی شرائط کے مطابق پی ایم سی کے ایکٹ میں ضروری ترامیم کیں اور اب پاکستان عالمی ادارے سے الحاق سے صرف ایک برس کی دورہ پر تھا کہ دوبارہ راتوں رات انہی کرپٹ عناصر کو بغیر مجاز اتھارٹی کی منظوری کے ادارے پر مسلط کر دیا گیا ہے۔  نیشنل میڈیکل اتھارٹی کی سربراہ ڈاکٹر شائستہ ذیشان نے بھی ان خدشات کی تصدیق کی کہ میڈیکل کالجز میں داخلوں کے لئے اہلیت کا معیار کم کرنے سے پاکستان کا بہت زیادہ نقصان ہو گا کیونکہ موجودہ قوانین کی موجودگی میں پاکستان کے ڈاکٹر 2023 کے بعد دنیا بھر میں کہیں بھی طبی خدمات انجام دینے کے لئے  اہل نہیں ہوں گے۔  حکومت نے طبی تعلیم کی قبر کھودنے کے لئے ایک اور انتہائی خطرناک اقدام یہ اٹھایا ہے کہ نیشنل لائسنسنگ ایگزام (این ایل ای) کو بھی ختم کر دیا ہے، یہ ایگزام ڈاکٹروں کو پریکٹس کا لائسنس لینے کے لئے لازمی دینا پڑتا ہے لیکن اس کو ختم کرنے سے اب جعلی ڈگری ہولڈر بھی ڈاکٹر بن جائیں گے اور عوام کی زندگیوں سے کھیلیں گے اور نجی کالجز کا کاروبار خوب چمکے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں چونکہ ہر شعبے میں سیاست کی جاتی ہے لہذا صحت کا شعبہ بھی حکمرانوں کے ذاتی مفادات، کرپشن اور ذاتی بغض و عنادکی نذر ہو رہا ہے، پی ایم سی کے اقدامات کے بعد پاکستان عالمی ادارے کا رکن بننے کے بالکل قریب تھا لیکن بدقسمتی سے وہی پرانے کرپٹ عناصر کو ایک بار مسلط کر دیا گیا ہے جنہوں نے سب سے پہلے میرٹ کا قتل کیا، پی ایم سی کو تحلیل کرنے کی سازش کی، میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے ایم ڈی کیٹ کو ختم کیا، داخلے کا معیار انتہائی کم کر دیا جس کے بعد ڈبلیو ایف ایم ای کے ساتھ پاکستان کے الحاق کا عمل رک گیا ہے۔ ( جاری ہے)
ایسا کیوں کیا گیا ہے اس کا جواب بہت سادہ ہے، نجی میڈیکل کالجز انتہائی کم معیار کی طبی تعلیم انتہائی مہنگے داموں ''بیچ'' رہے ہیں اور سندھ میں یہ معیار ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت تکلیف دہ حد تک گرا ہوا ہے لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت کے لئے ''مفید'' ڈاکٹر عاصم حسین اور کچھ اور شخصیات جن کے اپنے میڈیکل کالجز ہیں وہ داخلوں کی اہلیت کے بلند معیار سے بہت نالاں تھے کیونکہ اس طرح ان کی کمائی بتدریج کم ہو رہی تھی اس لئے سابق دور حکومت میں کی گئی اصلاحات کو رول بیک کیا جا رہا ہے۔ (یاد رہے کہ نجی میڈیکل کالجز میں داخلے بھی ایک پرکشش کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے) پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد جب ڈبلیو ایف ایم ای کے ساتھ الحاق کا عمل تعطل کا شکار ہوا تو امریکہ میں موجود عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ''ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف پاکستانی ڈیسنٹ آف نارتھ امریکہ'' (اپنا) نے حکومت پاکستان سے رابطہ کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اصلاحات کو رول بیک کرنے کی مخالفت کی۔ مذکورہ تنظیم نے گزشتہ ماہ بھی پاکستان میڈیکل کمیشن کے ساتھ تفصیل سے سیشن منعقد کئے اور حکومت کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ تنظیم کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پاکستان نے پی ایم سی کو تحلیل کر دیا تو امریکہ میں موجود ہزاروں پاکستانی ڈاکٹر بے روزگار ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ جو پاکستانی طلبہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ سمیت دیگر ترقی یافتہ مالک میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، یکم جنوری 2024 کے بعد ان کے داخلے منسوخ کر دیئے جائیں گے جس سے ہزاروں طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے بھی پاکستان میڈیکل کمیشن کو یکم اگست 2022 کو ایک خط کے ذریعے امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں اور میڈیکل کے طلبہ کے تحفظات سے پاکستان حکام کو آگا کیا لیکن اس کے باوجود وفاقی وزارت صحت اس ملک دشمن قدم کے درپے ہے۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت پاکستان میڈیکل کمیشن کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پاکستانی ڈاکٹرز سپیشلائزیشن کے لئے بیرون ملک نہیں جا سکیں گے اس کے علاوہ بیرون ممالک میں موجود پاکستانی ڈاکٹروں کی نوکریاں ختم ہو جائیں گی جس سے پاکستان سالانہ اربوں روپے کے زرمبادلہ سے بھی محروم ہو جائے گا ۔ پاک فوج کے میڈیکل کالجز میں تربیت حاصل کرنے والے فزیشنز اور سرجنز کی قابلیت اور اہلیت کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے اور میڈیکل کور کے قابل ڈاکٹرز اقوام متحدہ کے امن مشنز سمیت دنیا بھر میں طبی خدمات کے لئے جاتے ہیں لیکن عالمی ادارے کے ساتھ الحاق کا عمل ختم ہونے کے بعد پاکستانی ڈاکٹروں کے بیرون ملک خدمات کی فراہمی پر پابندی بھی عائد ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین نے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کی ہے کہ میڈیکل ایجوکیشن کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ میڈیکل کالجز میں داخلوں کے سابقہ معیار کو برقرار رکھا جائے، پی ایم سی کا ایکٹ تبدیل نہ کیا جائے، ڈبلیو ایف ایم ای کے ساتھ الحاق کو ممکن بنایا جائے تبھی پاکستانی میڈیکل کالجز اچھے ڈاکٹرز پیدا کر سکیں گے


  

مزیدخبریں