تاریخی کتاب گھر، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ بند ہونے کی راہ پر!

فیروز بخت احمد
آجکل مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ سرخیوں میں ہے، اس وجہ سے نہیں کہ اِسکی کسی کتاب کا اجراءصدر مملکت یا وزیرِ اعظم کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ آکسیجن پر اپنی سانسیں گن رہا ہے، نزاع کی حالت میں ہے اور کبھی بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سما سکتا ہے! حال ہی میں جب یہ ک±تب خانہ مقفل ہو گیا تو جامعہ کے نہ تو کسی ا±ردو پروفیسر کو خیال آیا اور نہ ہی دیگر کسی ادارہ کے۔ اسٹیجوں پر زینت اگرو، ا±ردو کی وکالت کرتے ان ا±ردو پروفیسروں کے بچّے اعلیٰ انگریزی میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس میں کوئی برائی نہیں، مگر انہیں کام از کم، گھر پر تو ا±ردو سکھانے کا انتظم کرنا چاہئے، جو کہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ راقم کے بچّے بھی انگریزی میڈیم میں پڑھے ہیں، مگر ان کو اردو پڑھانے کے لئے اس نے ا±نہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ا±رد±و سکھانے کا فاصلاتی کورس "ارجن سنگھ سینٹر" میں جوائن کرا دیا۔ جہاں ا±ن میں ا±ردو کے تئیں کہیں لغزش نظر آئی، ا±نکو بٹہ دیا گیا کہ اگر ا±نہوں نے ا±ردو نہیں سیکھی، اِسکے ذریعہ جمع کی گئی ا±ردو کی کتابوں کی حفاظت نہیں کی تو مرنے کے بعد ا±سکا بھوت ا±ن کو ستائے گا! 

 وہ تو اللہ بھلا کرے معروف ادیب و کالم نگار، جناب معصوم مرادآبادی، محمّد وجیہہ الدین، ودود ساجد، مجید نظامی، شریا گھوش، احمد اللہ صدیقی،شکیل رشید، فیاض احمد وجیہہ، "ٹائمز آف انڈیا"، "اِنقلاب"، "راشٹریہ سہارا"، "دا وائر" وغیرہ کا
کہ اِن تمام حضرات اورنیوز ایجنسی کے ذریعہ دنیا کو پتہ چلا کہ کیا بد نظمی اور بد مزگی ہے مکتبہ میں!

یہ وہی مکتبہ جامعہ ہے، جسکی آبیاری کے لئے ہندوستان کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین اپنے دو قریبی دوستوں کے ساتھ جرمنی سے دہلی تشریف لائے تھے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ہر سال مکتبہ جامعہ تقریباََ 1000 کتابیں شائع کرتا تھا اور بکری بھی م±لک و بیرونِ ملک ہوا کرتی تھی۔

راقم کو یاد ہے کہ کس طرح وہ اپنی والدہ کی انگلی پکڑ کر ا±ردو بازار اور خاص طور سے مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ آیا کرتا تھا، جہاں سے ا±سے سستے داموں میں نہ صرف ماہنامہ " پیامِ تعلیم" (دہلی) کے بلکہ ماہنامہ "کھلونا" (دہلی), ماہنامہ "ٹافی" (لکھنو¿), ماہنامہ"چندا نگری" (بمبئی)، "ماہنامہ"غنچہ", (مرادآباد) ماہنامہ "شریر"،(بمبئی) ماہنامہ"نونہال" (کراچی) وغیرہ کے پرچے و سالانہ فائل بھی مل جایا کرتے تھے۔ یہ وہی مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ہے جو اردو بازار میں ہے اور جس کے اطراف سینکڑوں ا±رد±و کی کتابوں کی دوکانیں ہوا کرتی تھیں، جیسے "ک±تب خانہ عزیزیہ", "دینی کتاب گھر"، "مکتب? الحسنات (رامپور والا)"، "سنگم کتاب گھر"، "بانو ب±ک ڈپو"، "اختر کتاب گھر" وغیرہ۔ افسوس کہ ا±ردو بازار آج داستان پارینہ بن چکا ہے اور سوائے"ک±تب خانہ رحیمیہ" یا ایک، دو دیگر کتابوں کی دکانوں کے، یہ آج یہ م±رغ بریانی بازار بن چ±کا ہے۔ وہی قوم کہ جو تیرہویں صدی میں دنیا پر غالب تھی، جس نے بےشمار سائنسداں د±نیا کو دیئے اور جس نے ایک وقت نقلی چاند تک بنا لیا تھا، آج کتابوں اور علم سے کوسوں دور جا چکی ہے۔ 

 اخباروں میں خبر آنے سے کہ مکتبہ کا تالا کھل گیا ہے، لوگوں نے سوچا کہ سب ک±چھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں! مکتبہ جامعہ کا کافی روز بعد قفل کھلنے کے بعد معتبر کالم نگار جناب معصوم مرادآبادی نے تحریر کیا کے گیارہ روز کی اعصاب شکن لڑائی رنگ لائی ہے۔ علی خسرو زیدی صاحب کو بھی واپس بلالیا گیا ہے۔ بلاشبہ اگر کوئی کام نیک نیتی اور خلوص سے کیا جائے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مکتبہ جامعہ اردو ادب اور تہذیب کی آبیاری کے بنیادی مراکز میں سے ایک ہے۔ اگر اردو والے ثابت قدمی کے ساتھ اپنے حقوق کی لڑائی لڑیں تو آئندہ بھی کامیابی ملے گی۔ یہ بلکل ٹھیک ہے مگر مکتبہ کے موجودہ کارگزار جناب رضوان مصطفیٰ عرشی فرماتے ہیں کہ مکتبہ کا شٹر کھلنے سے مکتبہ جامعہ کے کارکنان کے مسائل کا شٹر بدستور بند ہے اور کسی بھی وقت اسکی چابی جامعہ کے مالکان واپس منگا سکتے ہیں۔

عرشی اور زیدی صاحبان نے یہ بھی بتایا کہ پچھلے 22 ماہ سے مکتبہ جامعہ کے کارکنان کو تنخواہیں بھی نہیں ملی ہیں اور دہلی، ممبئی و علیگڑھ کے تمام ملازمین کا تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپیہ صرف تنخواہوں کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اوپر قرض ہے۔ باوجود اس کے کہ مکتبہ کے پاس خود اپنی زمین ہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اس میں 92 فیصد ہے، پیسے کی کمی نہیں ہے اس ادارے کے پاس، مگر اس کے مالکان کی نیت میں کھوٹ ہے کہ اس کو وہ غالباََ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جب مکتبہ کی بلّی تھیلے سے باہر آئی اور دنیا ?و پتہ چلا کہ مکتبہ کو لے کر ا±رد±و زبان پر کیا ظلم ہو رہا ہے، اس کے کارکنوں کو تنخواہ نہیں دی جا رہی تو راقم الحروف نے ایک خط، مکتبہ کی سرپرست محترمہ پروفیسر نجمہ اختر کو مکتوب دیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو راقم مکتبہ کو بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے، اگر انکی جانب سے اجازت مل جائے۔ ابھی تک محترمہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا ہے اور نہ ہی ا±نہوں نے مِلنے کا وقت دیا ہے۔ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے تعلّق سے بے حسی کی تمام حدود پار کی جا چ±کی ہیں!

مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے موجودہ ذمّہ دار ، پروفیسر شہزاد انجم صاحب سے بھی بات نہیں ہو سکی اور نہ ہی انکی جانب سے کوئی فون آیا، جب کہ وہ راقم سے اکثر رجوع کرتے رہتے ہیں۔ ہاں، اس معاملہ میں انکی جانب سے سخت سرد مہری برتی جا رہی ہے۔ قائدے سے تو جیسا کہ وائس چانسلر، نجیب جنگ صاحب نے کیا تھا کہ جامعہ یونیورسٹی کو ح±کم دیا تھا کہ تمام اسٹیشنری، محکمہ امتحانات کے پرچے، رجسٹرار وغیرہ کے دفتر کی سبھی چیزوں کی اشاعت مکتب? جامعہ سے ہوگی، بہت بہتر اور کارگر تھا، جس سے اس کے حالات کافی سدھر گئے تھے۔ کیا محترمہ وائس چانسلر نجمہ اختر ایسا نہیں کر سکتیں؟

حالانکہ میڈیا میں مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے بے یار و مددگار، برباد حال اور تباہی کے دہانے پر بیٹھنے کی کافی خبریں اس چ±کی ہیں، مگر منتظمین کی بے حسی، بے دردی و بی رخی سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ا±نہوں نے اس مایہ ناز ادارہ کو نیست و نابود کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ان کی سوچ یہی ہے کہ مکتبہ کے چاہنے والے کسی بھی اخبار یہ چینل میں اس کو انصاف دلانے کی مہم چلا لیں، لکھ، لکھ کر اور بول، بول کر آخر تھک جائینگے اور مالکان مکتبہ اس کے قبرستان میں اٹھکھیلیاں کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن