فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
مخلوق خدا کی خدمت اور دکھی انسانیت کی مد د اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔اسلامی تعلیمات میں خدمت خلق پر بہت زور دیاگیا۔کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔چنانچہ اللہ رب العزت کے ہاں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔
یہ پہلا سبق تھا کتاب ھدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مساکین ،غربا ، یتیموں اور بیوا?ں کی خدمت کی اور ان کے حقوق ادا کرنے پر زور دیا۔معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے آج کے مشینی دور میں اس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔نفسا نفسی کا دور ہے ،بے اعتمادی کی فضا ہے۔انسان انسان کا دشمن بن گیا ہے۔تمام تر خامیوں کے باوجود ہمارے معاشرہ کی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں درد دل رکھنے والے فرشتہ صفت انسانوں کی کمی نہیں۔یہ حضرات اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے وسائل قربان کر دیتے ہیں۔ان میں سے کچھ ہستیاں منظر عام پر آئیں پر بہت سی ہستیاں خدمات سر انجام دے کر گمنامی کی زندگی گزار کر دار فانی سے پردہ فرما گئیں۔ماہر بصیرت و بصارت ڈاکٹر حافظ صاحبزادہ فرخ حفیظ رحمتہ اللہ علیہ کا شمار ایسے ہی گمنام ہیروز میں ہوتا ہے جو خاموشی کے ساتھ مخلوق خدا کی خدمت میں مگن رہے۔ آپ کا تعلق ایک عظیم دینی و روحانی خانوادہ سے تھا۔اللہ پاک اور حبیب خدا سے محبت آپ کو ورثہ میں ملی۔نشتر میڈیکل کالج ملتان سے گریجوایشن کے بعد آپ نے شعبہ امراض چشم میو ہسپتال لاہور میں ذمہ داریاں سنبھالیں۔خدمت خلق کاجذبہ زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔آپ زبردست ماہر امراض چشم تھے۔اپنی اس طبی مہارت کو دکھی انسانیت کے فلاح کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ایک بڑے فلاحی منصوبہ” فیضان ویلفئیر ٹرسٹ“ کی بنیاد رکھی۔ملازمت کو خیر باد کہا اوراپنے آپ کو مخلوق خدا کے لیے وقف کردیا۔بہترین ماہرین امراض چشم اور کارکنوں پر مشتمل ٹیم تیار کی۔شعبہ امراض چشم میو ہسپتال لاہور کے سربراہ ڈاکٹر ناصر چوہدری ، ڈاکٹر فاروق مصطفی علوی ، ڈاکٹر محمد ندیم ، ڈاکٹر یاسر افضل اور جذبہ خدمت سے سرشار کارکن اس عظیم مشن کا حصہ ہیں۔بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ملک عزیز کے دور افتادہ علاقوں میں” فری آئی کیمپس “لگائے۔جہاں بلا مبالغہ لاکھوں مستحق افراد فیض یاب ہوئے۔مفت معائنہ ، مفت اپریشن ،مفت ادویات اور نظر کی عینکیں فراہم کی جاتی تھیں۔ایک اندازہ کے مطابق آپ نے چار لاکھ آپریشن کر کے ریکارڈ قائم کیا۔امراض چشم کے علاوہ آپ نے دیگر امراض کے علاج کے لئے بھی ہسپتال قائم کیے جہاں علاج معالجہ کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور بڑا کارنامہ ” مسجد پاک وگھہ شریف “کی تعمیر ہے۔منفرد اور جدید طرز تعمیر کے شاہکارکی بنیاد 2001 عیسوی میں دریائے چناب کے کنارے آبادایک بستی کیرانوالہ سیداں میں رکھی۔اس پر شکوہ مسجد کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مسجد کا نقشہ آپ نے خود تیار کیا۔تعمیراتی کام اپنی نگرانی میں مکمل کروایا۔سنگ مرمر پر کیلی گرافی اپنے دست مبارک سے کی۔ماہرین تعمیرات حیران ہیں کہ کس طرح ایک ماہر آئی سرجن اتنا بڑاماہر تعمیرات اور اتنا زبردست خطاط بھی ہو سکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس عظیم الشان مسجد کو قومی ورثہ میں شامل کر لیا ہے۔ایک چھوٹے دیہات میں سفید سنگ مر مر سے تیار کیا گیا فن تعمیر کا یہ شاہکار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب انتہائی وجیہہ اور نفیس انسان تھے۔اعلیٰ تعلیم اوربلند مقام و مرتبہ کے باوجود عاجزی اور انکساری کا پیکر تھے۔ہر امیر و غریب کی بات مکمل توجہ سے سنتے۔خدمت خلق کے میدان کے خاموش مجاہد تھے۔اس لیے عوام کی کثیر تعداد آپ کی خدمات سے ناواقف ہے۔نمود ونمائش کو پسند نہیں کرتے تھے۔اللہ کی رضااور خوشنودی کا حصول ہی آپ کا مقصد تھا۔خطابات ،بیانات اور پمفلٹس کی صورت میں دین کی ترویج و اشاعت اور روحانی رہنمائی کافریضہ سر انجام دیتے رہے۔آپ کے وصال پر بلا مبالغہ لاکھوں افراد نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ جناب صاحبزادہ حافظ محمد احسن صاحب اپنے عظیم والد گرامی کے مشن کو احسن انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔دعا ہے کہ یہ قافلہ اسی طرح اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔
ملک عزیز کی موجودہ معاشی اور معاشرتی صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر فرداپنے وسائل کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو خدمت خلق کے لیے وقف کرے۔معروف سماجی رہنما مدر ٹریسا نے بڑی عمدہ بات کہی کہ ” بے شک آپ سو افراد کوکھانا نہیں کھلا سکتے ایک کو تو کھلا سکتے ہیں “۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
Sep 17, 2023