ضلع سرگودھا کی تحصیل (اب ضلع) خوشاب کے قصبہ کھوڑہ کا جواں سال قادر بخش دینی تعلیم کے حصول کیلئے لاہور آیا۔ یہ پچاس ساٹھ کے عشرے کی بات ہے۔ وہ سب سے پہلے ایک ایسے مدرسے میں داخل ہوا جہاں زیرتعلیم بچوں کو نمازمغرب اور عشاء کے درمیان مدرسہ کے قریب واقع گھروں سے کھانا اکٹھا کرنے کےلئے بھیجا جاتا تھا۔ قادر بخش یہ فرض انجام دیتا رہا پھر کسی نے اسے شیش محل روڈ پر مولانا سید محمد داﺅد غزنوی کے مدرسہ جامعہ تقویتہ الاسلام کی راہ دکھائی جہاں اس نے دینی تعلیم کی نہ صرف پیاس بھجائی بلکہ اسے اپنے زمانے کے جید علمائ دین کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ دینی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس نے جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تصانیف کا مطالعہ کیا اور اس وقت اسلامی انقلاب لانے کے مولانا مودودی کے نظریہ سے متاثر ہوکر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی جہاں اسے اپنے وقت کے عربی کے عظیم معلم مولانا مسعود عالم ندوی اور انکے شاگرد عاصم الحداد سے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ قادر بخش کا نام تبدیل کرکے عبدالقادر حسن نام جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما اور ممتاز دینی رہنما اور عربی زبان کے استاد گرامی مولانا عبدالغفار حسن نے عطا کیا۔ مولانا داﺅد غزنوی اور مولانا مسعود عالم ندوی سے فیض اٹھا کر عبدالقادر حسن نے عربی زبان میں خوب دسترس حاصل کرلی۔ اسے جماعت اسلامی میں مولانا نعیم صدیقی‘ پروفیسرعبدالحمید صدیقی‘ جناب مصطفی صادق‘ جناب عبدالحمید کھوکھر اور جناب کوثر نیازی کی رفاقت میں کام کرنے کا موقع ملا۔
عربی زبان میں شائع ہونے والے مضامین کے اس کے تراجم جماعت اسلامی کے جرائد میں شائع ہونے لگے۔ پھر اسے میدان صحافت میں قدم رکھنے کا شوق ہوا جو اسے نوائے وقت کے بانی ایڈیٹر حمید نظامی مرحوم کے ہاں لے گیا اور وہ نوائے وقت کے نیوز ڈیسک پر ظہور عالم شہید‘ پروفیسر زکریا ساجد‘ ہمایوں ادیب اور سلطان عارف جیسے نامور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے لگا‘ جہاں اس نے انگریزی سے اردو میں خبریں ترجمہ کرنے اور خبروں کی سرخیاں بنانے کے فن میں کمال حاصل کیا۔
پھر جب میاں افتخار الدین مرحوم کے اشاعتی ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ نے اپنے زمانے کے نہایت منفردسات روزہ جریدہ ”لیل ونہار“ کا اجراءکیا تو وہ ”لیل ونہار“ سے وابستہ ہوگیا جہاں اسے ممتاز ادیب اورصحافی سید سبط حسن کی نگرانی میں کام کرنے کا موقع ملا اس کا کہناتھا کہ انہیں سبطے صاحب نے(انہیں اس نام سے ہی یادکیا جاتا تھا) ایک فیچر لکھنے پر مامور کیا۔ جب وہ یہ فیچر لکھ کر ان کے پاس لے گئے تو انہوں نے اس پر ایک نظر ڈالی اس کی اصلاح کی اور دوبارہ لکھنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے لیل ونہار میں عربی جرائد کے بعض مضامین کے ترجمے بھی کیے جب ایوب حکومت نے پر وگریسو پیپرز لمیٹڈ کو سرکاری تحویل میں لے لیا تو سبط حسن صاحب کو ادارتی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرکے صوفی غلام مصطفی تبسم کو لیل ونہار کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا تو عبدالقادرحسن نے بھی لیل ونہار چھوڑ دیا اورپھرحمید نظامی کے پاس چلے گئے حمید نظامی نے انہیں نوائے وقت میں دوبارہ کام کرنے کی خوشی خوشی اجازت دے دی مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی کردیا کہ لیل ونہار میں کام کرتے ہوئے آپ کمیونسٹ تونہیں بن گئے، عبدالقادر حسن نے کہا ”میں جتنا مسلمان تھا ا±تنا ہی مسلمان رہا“۔
جب 25 فروری 1962ءکو جناب حمید نظامی کاانتقال ہوا تو لائل پور سے روزنامہ وفاق کے اجرا کو پچیس روز ہوئے تھے ،ہمیں جستجو تھی کہ یہ معلوم ہو جائے کہ حمید نظامی کا جانشین کون ہوگا۔ مصطفی صادق صاحب نے رات گیارہ بجے نوائے وقت میں فون کیا جو عبدالقادر حسن نے اٹھایا۔ مصطفی صادق کے استفسار پر انہوں نے کہا ” مجید نظامی“ ہم نے روزنامہ وفاق کاپورا صفحہ سیاہ حاشیہ اور پیشانی اوپر کی بجائے بالکل نیچے لگا کر حمید نظامی کی رحلت کی روح فرسا خبر شائع کی اور اس میں ایک حاشیہ میں یہ خبر بھی شامل کی کہ مجید نظامی نوائے وقت کے ایڈیٹر ہونگے۔
مجید نظامی نے عبدالقادر حسن کی صلاحیتوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور انہیں نوائے وقت اور پھر ندائے ملت میں چیف رپورٹر مقرر کیا اورانہیں”غیر سیاسی باتیں“ کے عنوان سے کالم لکھنے کی ترغیب دی، نام تواس کا غیرسیاسی باتیں تھا مگر اس نام کے پردے میں تمام تر سیاسی باتیں ہی ہوتی تھیں۔ یہ کالم خوب مقبول ہوا ، عبدالقادر حسن کے اس وقت کے سیاسی قائدین مولانا مودودی ، مولانا مفتی محمود، چوہدری محمدعلی، میاں ممتاز دولتانہ، نوابزادہ نصر اللہ خان ،خان عبدالولی خان، پروفیسر عبدالغفور احمد، ایئر مارشل (ر) اصغر خاں اور ایئر مارشل (ر) نور خان سے قریبی مراسم رہے اور ان خصوصی ذرائع سے انہیں ”اندر کی خبریں“ ملتی رہیں جو نوائے وقت میں نمایاں طورپر شائع ہوئیں۔ عبدالقادر حسن کی تمام تر صحافتی تربیت سید سبط حسن، جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی کی مرہون منت ہے۔ لکھنے کی صلاحیت خداداد تھی۔
نوائے وقت کے بعد سالہا سال ان کا کالم جنگ میں شائع ہوتا رہا اور جنگ کے بعد یہ کالم ایکسپریس کی زینت بنا۔ اپنے دور کے تین بڑے اخبارات میں اس کی اشاعت نے عبدالقادر حسن کے سب سے پہلے سیاسی کالم لکھنے کے ان کے اعزاز کی قدرو وقعت میں اور بھی اضافہ کیا ، اسلام پاکستان اورنظریہ پاکستان عبدالقادر حسن کے محبوب موضوعات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شائستگی اور سنجیدگی سے اظہار خیال کا خصوصی ملکہ عطا کیا تھا جوان کے آخری کالم تک برقرار رہا۔ ........ (جاری)
عبدالقادر حسن
Sep 17, 2023