ریسکیو 1122 میں بھی بدعنوانی؟

Sep 17, 2023

تنویر ساحر

ق±درتی آفات اور حادثات میں انسانی جانیں بچانے کے لیے دو دہائی قبل پاکستان کے اندر پنجاب میں ریسکیو 1122 کا ایک محکمہ بنایا گیا۔ جسے آج بھی دیگر سرکاری محکموں کے مقابلے میں بہت بہتر تصور کیا جاتا ھے ، کیونکہ لوگ سمجھتے ھیں کہ ریسکیو سٹاف بنا کسی رشوت کے ان کے بر وقت کام آتا ہے۔ 
گزشتہ ہفتے مجھے معلوم ھوا کہ ریسکیو 1122 نے پنجاب بھر میں اپنے 200 سے زائد ملازمین کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت شوکاز نوٹس جاری کر دئیے ھیں۔ پیڈا ایکٹ عموماً ، کرپشن ثابت ھونے کے بعد انتہائی بدعنوان اور غیر ذمہ دار سرکاری ملازمین کے خلاف لگتا ہے۔۔۔ تو میرے لیے حیرانگی کا باعث تھا کہ اتنے ایماندار محکمے میں کوئی بد عنوانی کیسے ہو گئی ہو گی ؟۔۔۔ 
میں نے حقائق جاننے کے لیے کھوج لگانے کی کوشش کی ، تو محکمہ کے اندر موجود مسائل کا ایک پینڈورا باکس ک±ھلتا چلا گیا۔۔۔ اور معلوم ھوا کہ دوسروں کی جانیں بچانے والوں کی اپنی جانیں کتنے خطرے میں ھیں ؛؛؛ اور بعض اوقات ریسکیو کئیے جانے والے مریضوں اور زخمیوں کی جانیں کتنی خطرے میں ھیں۔ اس کی وضاحت آگے چل کر ہو گی۔
پیڈا ایکٹ کے تحت جاری ھونے والے سینکڑوں شوکاز نوٹسز زیادہ تر ملازمین کو کسی کرپشن پر نہیں بلکہ اوور ویٹ ہونے پر جاری ھوئے تھے۔ جن میں سے اکثر ملازمین کی عمریں بیس سال سروس کے بعد اب پچاس سال کے قریب پہنچ چ±کی تھیں ، اور عمر کے اس حصے میں زائد العمری یا بیماریوں کے باعث موٹاپا آ جانا ایک نیچرلی فزیکلی تبدیلی ہے ۔ جس میں دیگر محکمے اپنے ملازمین کو نوکری سے نکالنے دھمکی دینے کی بجائے نوکری کے آخری سالوں میں فیلڈ ڈیوٹی سے دفتری ڈیوٹی پر مامور کر دیتے ہیں یا ریفریشر کورس کرا دیتے ہیں ۔۔۔ 
لیکن یہاں نئی بات سامنے آئی کہ ریسکیو 1122 میں فیلڈ ڈیوٹی ھو یا دفتری فرائض فزیکل فٹنس کا قانون سب پر لاگو ہے۔ چاہے وہ دفتری خواتین سٹاف ھی کیوں نہ ہو۔۔۔ اس لیے اوور ویٹ کی محکمانہ تلوار لٹکنے کے بعد کچھ لوگ وزن گھٹانے کے چکر میں ا±لٹی سیدھی ادویات لیکر اپنی جانیں بھی گنوا چکے ہیں ۔
اب یہ اور حیران ک±ن بات تھی کہ فزیکل فٹنس برقرار رکھنے کے لیے ، کوئی محکمانہ میکنزم ھونا چاھئے ، سال میں ایک دو لازمی ریفریشر کورس ھوں۔ اضلاع میں ان کے اپنے ورزش سنٹر ھوں جہاں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کے مطابق ماہر انسٹریکٹرز کی نگرانی میں ان کو وزن کم کرنے یا مطلوبہ وزن برقرار رکھنے کی مخصوص ایکسرسائز محکمانہ طور پہ ریکمنڈ کر کے کرائی جائیں۔ پھر ایک نئی بات بھی سامنے آئی کہ محکمہ بننے کے دس سال بعد اس کا ٹریننگ سنٹر بنایا گیا تھا اور 16 سال بعد گزشتہ برس اس کے قانون بنائے گئے اور 16 سال بعد بھی محکمانہ قانون بننے کے باوجود ، عالم یہ ھے کہ پنجاب بھر کے نائب قاصدوں کو بھی فزیکلی ٹریننگ کے لیے ہیڈ آفس بلا لیا گیا ھے ؛؛؛ 
کسی سرکاری محکمہ میں درجہ چہارم کے ملازمین اور سنٹری ورکررز کی دوسرے اضلاع میں ٹرانسفر نہیں ھوتی لیکن ریسکیو 1122 میں پنجاب بھر میں یہ تبادلے بھی کر دئیے جاتے ھیں۔ 
یہ اطلاع بھی ملی کہ گریڈ ایک سے اٹھارہ تک کے درجنوں ملازمین اور افسران نوکریاں چھوڑ گئے یا محکمہ چھوڑ گئے اور کئی فارغ بھی کر دئیے جاتے ھیں ؛ جس کی ایک وجہ یہی عجیب منطق ھے کہ کمپیوٹر یا اکاونٹ برانچ کے ملازمین اور دفتری سٹاف کی خواتین سمیت سب کی جسمانی فٹنس ضروری ہے۔ 
اکثر خواتین کی دفاتر کے اندر حراسمنٹ کے الزام کی دفتری انکوائریاں محکمہ کے اندر ثابت نہیں ھوتیں اور خاتون محتسب کی انکوائری میں ثابت ھو جاتی ھیں۔ رہا ٹریننگ سنٹر تو وہاں زیادہ تر محکمانہ غفلت کے مرتکب ملازمین کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ھے۔۔۔ اگر ملازمین کی جسمانی فٹنس برقرار رکھنے کا کوئی باقاعدہ محکمانہ میکنزم ھو تو سزا کے طور پر ٹریننگ سنٹر میں بھیجنے کی نوبت ھی نہ آئے۔
ایمرجنسی سروسز میں واٹر ایمرجنسی ، فائر ایمر جنسی ، میڈیکل ایمر جنسی اور بلڈنگز وغیرہ کی ہائیٹ ایمرجنسی شامل ھوتی ھے ؛ دنیا بھر کے نمبر ون یو کے ، کے 911 سمیت دیگر ریسکیو ادارے مختلف نوعیت کی ایمرجنسی کے لیے الگ الگ تربیت یافتہ سٹاف رکھتے ھیں اور مطلوبہ ٹریننگ کے ساتھ تجویز شدہ ایکسر سائز کراتے ھیں ؛؛؛ لیکن یہ خبر بھی ملی کہ ریسکیو 1122 میں اکثر و بیشتر فائر فائیٹنگ والے بھی میڈیکل ایمرجنسی ڈیل کر رھے ھوتے ھیں کیونکہ پورے محکمہ میں ایک ھی یونیفارم ھے ؛ اس لیے کسی ایمبولینس میں لیٹے مریض یا لواحقین کو علم ھی نہیں ھوتا کہ مریض کو کوئی ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف فرسٹ ایڈ دے رھا ھے یا فائر فائیٹنگ والا یہ سروس فراھم کر رھا ھے۔ اور کہیں لگی آگ بجھانے کے لیے فائر فائٹر آئے ھیں یا میڈیکل سٹاف یہ ڈیوٹی سر انجام دے رھا ھے۔
ریسکیو 1122 کے سارے سٹاف کو بیسک لائف سپورٹ کا وہی کورس کرایا جاتا ھے جس کی ورکشاپ دیگر پرائیویٹ کمیونٹی کو بھی دی جاتی ھے۔ جبکہ سٹاف کو روزانہ حاضری کے دوران چند منٹ کے لیے ایک جگہ پر کھڑے کھڑے صرف پی ٹی کرا دی جاتی ھے۔ پھر مہینے بعد ایک کلو میٹر کی دوڑ ، جو کہ روزانہ ھونی چائیے۔۔۔ جس کے بعد سوال یہ بھی بنتا ھے کہ اگر ریسکیو 1122 کے ٹریننگ سنٹر میں ایمرجنسی سروسز کے عالمی معیار کو فالو کرتے ھوئے کوئی ٹریننگ کرائی جاتی ھے تو ،،، دوران ڈیوٹی ان کے اپنے سٹاف کی اموات کیوں ھوتی ھیں جبکہ دنیا بھر میں ایمرجنسی سٹاف کو سیفٹی قوانین کے تحت سب سے پہلے اپنی جانیں بچانے کی ٹریننگ دی جاتی ھے۔۔ اور یہاں بیس سالوں میں دورانِ ڈیوٹی محکمہ کے درجنوں ملازمین کی اموات ھو چکی ھیں۔۔۔ 
صرف لاھور کے اندر گھکڑ پلازہ میں ایک ھی وقت میں عملے کے 14 لوگ شہید کرا دئیے گئے ، 9 سال قبل ایل ڈی اے پلازہ میں پھنسے 23 لوگوں کو جانیں بچانے کے لیے اوپر سے چھلانگیں لگوائی گئیں اور کسی ایک کو بھی بچایا نہ جا سکا ، شاہ عالمی میں لگی آگ پر قابو نہ پا سکے اور چھ دن بعد فوج نے آ کر وہ آگ بجھائی ، الفلاح بلڈنگ میں لگی آگ پر کنٹرول نہ کر سکے جس پر دوسرے محکمہ کی فائر بریگیڈ نے آ کر قابو پایا ، حفیظ سنٹر میں لگی آگ نے جو نقصان کرنا تھا وہ کیا اور تاجروں کے باقی محفوظ سٹاک کو پانی میں ڈبو دیا گیا ،،، اس آپریشن میں بھی بچایا کیا گیا۔؟
اس کے بعد رہ جاتی ھے میڈیکل ایمرجنسی جس کے پیش آنے کی شرح 98 فیصد ھے کہ مریضوں کو گھروں یا سڑکوں سے ریسکیو کر کے ہسپتال شفٹ کر دیا جاتا ھے ، یہی وہ 98 فیصد ایمر جنسی ھے جو ریسکیو 1122 کی عوام میں وجہ شہرت ھے ، جسے ھم ایمبولینس سروس کہہ سکتے ھیں ، اس کے لیے تو ایدھی ایمبولینس کا خیراتی ادارہ پورے ایشیاء میں نمبر ون اور کم خرچ ھے۔ پانی میں ڈوبے 90 فیصد لوگوں کی ریسکیو 1122 کا سرکاری ادارہ صرف پھ±ولی ھوئی لاشیں ڈھونڈ کر دے دیتا ھے۔۔۔ انسانی جان بچا لینے کے واقعات اس ایمر جنسی میں شاذو نادر ھی سامنے آتے ہیں۔ 
ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ھے کہ ریسکیو 1122 میں نئے سرے سے کوئی موثر قانون سازی کی جائے جس میں ملازمیں کی جانوں اور نوکری کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جائے ، کیونکہ گزشتہ ماہ ہی لاھور کے کسی ریسکیو ملازم کی مسلسل ٹرانسفر کی ذہنی اذیت سے خودکشی کرنے کی اطلاع بھی موصول ھوئی ھے۔ اور محکمہ کے اندر مخصوص ایمرجنسی کے مخصوص سٹاف کی عالمی معیار کے مطابق ٹریننگ اور ایکسر سائز کا کوئی ریکمنڈڈ میکنزم بنایا جائے تاکہ آئندہ بھی بظاہر سرکاری محکموں میں واحد اچھے چہرے کا حامل یہ ادارہ اپنی سروسز بہتر سے بہتر کر سکے اور محکمہ میں اپنی جوانی صرف کرنے والے ملازمین کو بوڑھا ھونے پر بنا واجبات کے فارغ کرنے کی کوشش کی بجائے ا±ن کو دوران ملازمت عزت سے سنبھالا جائے اور پورے واجبات کے ساتھ ریٹائر کر کے رخصت کیا جائے۔

مزیدخبریں