نیب کیس میں سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ

چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاءبندیال کی ریٹائرمنٹ کے دن انکی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت رائے کے ساتھ نیب ترامیم کیخلاف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی درخواست قابل سماعت قرار دیکر سبکدوش ہونیوالی قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کی منظور کردہ دس میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دے دیں اور میاں نوازشریف‘ آصف علی زرداری‘ شاہد خاقان عباسی‘ سید یوسف رضا گیلانی‘ میاں شہبازشریف‘ اسحاق ڈار‘ شوکت عزیز‘ شوکت ترین اور سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف سمیت متعدد سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات بحال کر دیئے۔ فاضل عدالت نے اس سلسلہ میں نیب کو ہدایت کی ہے کہ وہ سات دن کے اندر اندر تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھجوا دے۔ فاضل بنچ نے نیب کے دائرہ اختیار میں آنیوالی پچاس کروڑ روپے تک کی بدعنوانی سے متعلق شق بھی بحال کر دی جو گزشتہ پارلیمنٹ نے نیب ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ختم کر دی تھی۔ فاضل بنچ نے قرار دیا کہ پلی بارگین میں عدالتی اختیار ختم کرنا عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہے جبکہ کرپشن کی نذر ہونیوالا پیسہ ریکور نہ ہونا بنیادی حقوق کو براہ راست متاثر کریگا۔ عدالت نے قرار دیا کہ پچاس کروڑ روپے تک کی مبینہ کرپشن کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکالنا عوامی نمائندوں کو معافی دینے کے مترادف ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سہ رکنی بنچ کے ایک فاضل رکن مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے بنچ کے اکثریتی فیصلہ سے اتفاق نہیں کیا اور اپنے اختلافی نوٹ میں قرار دیا کہ بنچ کا اکثریتی فیصلہ بذات خود آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کیس میں سوال غیرقانونی ترامیم کا نہیں‘ پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے جو آئین کے تحت اسے حاصل ہے۔ فاضل جج نے اپنے اختلافی نوٹ میں قرار دیا کہ پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے تو اسے واپس لینے کی بھی مجاز ہے جبکہ اکثریتی فیصلے میں یہ بات پیش نظر نہیں رکھی گئی۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر دور حکومت میں احتساب کے ادارے کو اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف انتقامی سیاسی کارروائی کیلئے استعمال کیا جاتا رہا اور ہر حکمران کی جانب سے خود کو بچانے کیلئے احتساب کے قوانین بشمول احتساب ایکٹ اور نیب آرڈی ننس میں ردوبدل کیا جاتا رہا۔ 2007ءتک قومی احتساب بیورو اور نیب ویسے ہی حکومت کے تابع تھا جس کے چیئرمین کا تقرر خالصتاً وزیراعظم کی صوابدید پر عمل میں آتا تھا چنانچہ کسی حکومتی لیڈر یا رکن کے خلاف احتساب کے قانون کے تحت مقدمہ کے اندراج کی احتساب کے ادارے کو جرا¿ت ہی نہیں ہوتی تھی۔ 2008ءکی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے 18ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی جس میں نیب کو بھی خودمختار ادارے کی حیثیت دی گئی اور چیئرمین نیب کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت کے ساتھ مشروط کردیا گیا۔ اس ترمیم کے تحت مسلم لیگ (ن) کے دور میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے ساتھ پہلے قمرالزمان اور پھر جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تقرر عمل میں آیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے جبکہ نیب کے ان دونوں سربراہوں کیخلاف سب سے زیادہ الزامات پی ٹی آئی کی جانب سے ہی سامنے آئے۔ 2018ءکے انتخابات کے نتیجہ میں پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی اور عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے نیب کے خودمختار ہونے کے باوجود اسکے چیئرمین کو ایک ویڈیو سکینڈل کے ذریعے بلیک میل کرکے نیب کو اپنی مخالف اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں اور دوسرے عہدیداروں کیخلاف سیاسی انتقامی کارروائی کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور نیب کے مقدمات کو انکے گلے کا پھندا بنانے کی کوشش کی۔ جب نیب کی جانب سے بنی گالہ میں عمران خان کے گھر کی ناجائز تعمیر کی انکوائری شروع کی گئی اور اسی طرح پی ٹی آئی حکومت کے بعض وزراءبھی بھی نیب کے مقدمات کی زد میں آئے تو پی ٹی آئی حکومت نے نیب کے پر کاٹنے کیلئے دوبار نیب آرڈی ننس میں ترمیم کی جس سے نیب کے مقدمات میں ملوث پی ٹی آئی کے وزراءاور دوسرے ارکان کو فائدہ ہوا۔ 
پی ٹی آئی دور میں نیب آرڈی ننس میں دوسری بار ہونیوالی ترمیم کے وقت جسٹس عمر عطاءبندیال چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر فائز ہو چکے تھے اور جوڈیشل ایکٹوازم کو انصاف کی عملداری کے نام پر بروئے کار لا رہے تھے۔ اس تناظر میں انہوں نے اپنے ازخود اختیارات کو بھی استعمال کرنا شروع کیا اور اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ تشکیل دے کر ازخود اختیارات سے متعلق مقدمات کی سماعت شروع کر دی جس سے ایک عمومی تاثر یہ پیدا ہوا کہ وہ پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت کو تقویت پہنچانے کیلئے ازخود اختیارات بروئے کار لا رہے ہیں۔ 
نیب کے قانون میں ترامیم کیخلاف جس معاملہ کا نوٹس چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے اپنی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے سہ رکنی بنچ کے ذریعے لیا‘ وہی معاملات پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے نیب ایکٹ میں کی گئی ترامیم سے بھی متعلق تھے مگر فاضل چیف جسٹس نے ان ترامیم کا نوٹس لینے کے بجائے ان سے صرفِ نظر کیا چنانچہ اسی بنیاد پر پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کی منظوری کیخلاف عمران خان کی دائر کردہ درخواست کی پذیرائی کرنے سے انکے بارے میں یہ تاثر پختہ ہوا کہ انہوں نے پی ٹی آئی اور اسکے چیئرمین کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے بطور چیف جسٹس اپنے ازخود اختیارات استعمال کئے ہیں۔ 
یقیناً اسی تناظر میں سپریم کورٹ کے اندر بھی انکے عدالتی اور انتظامی طریق کار پر برادر ججوں میں تحفظات پیدا ہوئے جس کا اظہار وہ اپنے اختلافی نوٹس اور فیصلوں کے ذریعے بھی کرتے رہے۔ اب نیب کیس کے فیصلہ میں بھی جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ کے ذریعے سبکدوش ہونیوالے فاضل چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کے ساتھ ساتھ اس کیس کی سماعت کے جواز کا سوال بھی اٹھایا ہے اور باور کرایا ہے کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ کسی قانون کو عدالت کے ذریعے کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فاضل بنچ کے اکثریتی فیصلہ کیخلاف اب حکومت کی جانب سے یقینناً سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی جائےگی جس میں پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کا سوال اٹھے گا۔ اس حوالے سے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور دوسری سیاسی قیادتوں کے علاوہ آئینی ماہرین کی آراءبھی سامنے آچکی ہیں اور امکان یہی ہے کہ پارلیمنٹ کے اختیار کی روشنی میں سپریم کورٹ نظرثانی کی درخواست میں ٹھوس فیصلہ صادر کریگی مگر چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے تو ریٹائر ہوتے وقت بھی ایک مخصوص سیاسی سوچ کیلئے جانبداری کے اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بطور چیف جسٹس انکے اقدامات اور فیصلے اب عدالتی تاریخ کے تناظر میں ہی پرکھے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن