اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نوائے وقت رپورٹ)نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہاہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حل نہ ہونے والے ایجنڈا آئٹمز میں جموں وکشمیر کاتنازعہ سب سے پرانا ہے اور پاکستان بھارت کے غیر قانونی طور پرزیرقبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کو تمام عالمی اور علاقائی فورمز پر اٹھاتا رہے گا، پاکستان افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان کے عرب، خلیجی اور دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں ، مغرب کے ساتھ کئی دہائیوں پر محیط تعلقات آنے والے سالوں میں مزید مضبوط ہوں گے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے روانگی سے قبل امریکی نشریاتی ادارہ وائس آف امریکا کوانٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان تمام دستیاب کثیرالجہتی اور علاقائی فورمز پر مسئلہ کشمیر کا مستقل اور باقاعدگی سے دفاع اور وکالت کرتا رہا ہے اور اس مسئلہ کے حل تک پاکستان اپنا یہ کردارجاری رکھیں گا ۔انتخابات سے متعلق بعض افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مینڈیٹ ہے ۔وزیراعظم نے ملک میں جمہوری عمل کو برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ انتخابی عمل کو بغیر کسی رکاوٹ کے اوراحسن اندازمیں آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے ۔نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورت حال کے باوجود الیکشن التوا کا امکان دکھائی نہیں دے رہا، بیک وقت سرحدی خطرات پر قابو اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کروا لیں گے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، کشمیر کو ایک بڑی جیل کی صورت میں تبدیل کردیا گیا ہے، پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق ایسی کوئی خلاف ورزیاں نہیں، پاکستان میں کسی کا نام بھی لینے پر کوئی پابندی نہیں، پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ بہت بہتر ضرور ہے، الیکشن کی تاریخ کا مینڈیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے، نگراں حکومت کا نہیں، پاکستان کا مفاد سب سے اولین ترجیح ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے۔ امن و امان اور سرحدی صورتحال کے باعث سردست عام انتخابات کے التوا کا امکان دکھائی نہیں دیتا لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پا لیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کروا لیں گے۔ دورہ امریکا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ تنازع کشمیر کا ایجنڈا اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بہت پرانا ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم تواتر کے ساتھ کشمیر کے کیس کا دفاع اور اس کی وکالت مختلف بین الاقوامی فورمز پر کرتے رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں،وادی کو بڑی جیل کی صورت میں تبدیل کردیا گیا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ قیدیوں کی طرح محصور کردیئے گئے ہےں، انکی آواز دبائی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق ایسی کوئی خلاف ورزیاں نہیں ہیں، جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پالیسی کے نتیجے میں کی جا رہی ہیں۔ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی کا نام بھی لینے پر کوئی پابندی نہیں، کسی کا بھی نام لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ اگر سب سے بہتر نہ بھی سہی، مگر بہت بہتر ضرور ہے۔ کوئی ایسا ایشو نہیں ہے جس میں آپ کو اپنی صدا بلند کرنے کی اجازت نہ ہو یا اسے میڈیا پر چلانے کے مواقع دستیاب نہ ہوں۔ پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انتخابات کا انعقاد بنیادی طور پر قانونی اور آئینی لحاظ سے الیکشن کمیشن کا کام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے کام کو انتہائی ایمانداری سے سرانجام دینے جا رہے ہیں اور وہ اس پراسس کو پہلے ہی شروع کر چکے ہیں، جس میں کچھ حلقہ بندیوں سے متعلق ہیں اور جلد ہی الیکشن کمیشن دن کا تعین بھی کردے گا اور انتخابات کا اعلان بھی جلد ہو جائے گا۔ ایسا قطعا نہیں ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ہم کوئی اقدامات نہیں کررہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نگراں حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مختلف ضروریات کو پورا کرنے اور جہاں تعاون درکار ہو، وہاں ذمے داری ادا کررہے ہیں۔ صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کی تجویز سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ بات پھر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ مینڈیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے، نگراں حکومت کا نہیں۔ نگراں حکومت نے صرف معاونت کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم بیک وقت ان چیلنجز اور خطرات پر بھی قابو پا لیں گے اور انتخابات کے حوالے سے جو کام کرنا ہے، اسے بھی ہم مکمل کروائیں گے۔ عمران خان پر الزامات اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ معاملات عدالت میں ہیں اور ہمیں ان الزامات کے نتائج کا بھی انتظار ہے۔ یہ تاثر اگر جا رہا ہے تو درست نہیں ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں جو عدالتی کارروائی ہے یہ شفاف ہو، لوگوں کو بھی پتا چل جائے کہ یہ کسی کو سیاست سے دور کرنے کا عمل نہیں۔ اس کا اطلاق مجھ سمیت سب پر یکساں ہونا چاہیے۔ نگراں حکومت سے متعلق ایسا تاثر ہے کہ یہ جی ایچ کیو کا سویلین چہرہ ہے، اس سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ یہ کوئی نیا تاثر نہیں ہے، یہ عمران خان کی حکومت میں بھی تھا، جس پر سلیکٹڈ حکومت کا الزام لگاتھا، پی ڈی ایم کی حکومت آئی، ان پر بھی یہی الزام لگایا جاتا رہا، اور اس سے قبل بھی اسی طرح کے الزامات تھے۔ جب نئی حکومت آتی ہے تو پھر نئے چہروں اور نئی قیادت کے ساتھ یہ تاثر قائم رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک آئینی طریقے سے آئے ہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ تناو بڑھتا جا رہا ہے، جس پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا مفاد سب سے اولین ترجیح ہے۔ پشتون نسل سے تعلق ہونا اور پشتو زبان سے استعمال سے بعض اوقات فائدہ مند ہو بھی سکتا ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ یہ تاثر ہے کہ طالبان پاکستان کی بات نہیں سن رہے، نہ کوئی ایسی بات ہے کہ پاکستان طالبان کے حوالے سے کوئی مخصوص مطالبہ رکھ رہا ہو۔ ہمیں مغربی بارڈر پر دہشت گردی کے حوالے سے چیلنج درپیش ہے اور جب دوحا مذاکرات ہو رہے تھے، تب ٹی ٹی اے کے ساتھ اس نقطے پر بات ہوئی تھی کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی، جس کی انہوں نہ دوحا میں اس حوالے سے کمٹمنٹ بھی کی تھی۔