اظہر علی عابدی
sayedabidi@gmail.com
رب کائنات کا صد شکر کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر عید میلاد النبی منانے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ وجہ تخلیق کائنات کی ولادت باسعادت کی خوشی میں یقینا" پوری کائنات فرح و انبساط کی کیفیت میں ہے۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے ، اس کے لیے تو مسرت و شادمانی اور فخر و مباہات کا مقام ہے کہ افضل کائنات و فخرموجودات نے ایک انسان کی صورت میں آکر ہماری اس دنیا کو کو زینت بخشی اور انسان اشرف مخلوقات کہلانے کے قابل ہوا،۔ غالب نے کہا تھا کہ: کس سے ہوسکتی ہے مداحی ممدوح خدا ، کس سے ہوسکتی ہے آرایش فردوس بریں۔ لہذا غالب ہی کی زبان میں : غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم،کان ذات ِ پاک مرتبہ دان ِ محمد استکہ مدحت مولائے کل کا حق تو صرف ذات باری ہی ادا کر سکتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں اور اس بات پر کچھ قلم فرسائی کی کوشش کرتے ہیں کہ آج جب امت مسلمہ ولادت ختمی مرتب منا رہی ہے تو سب سے زیادہ کن باتوں پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ ﷺکا ذکر خدا وند قدوس نے جب قرآن پاک میں کیا تو اسے انسانیت پر اپنا ایک بہت بڑا احسان اور نعمت عظمیٰ سے تعبیر کیا۔یہ مضمون قرآن میں کئی جگہ مذکور ہے۔ سورہ آل عمران آیت 103 میںاللہ کریم فرماتاہے: اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اور یہ یقینا" اللہ کے رسول ہی تھے جن کی تعلیمات نے اس وقت کے وحشی معاشرے کو صلح و آشتی اور محبت و مروت کے مرقعے کی صورت ڈھال دیا۔ امت مسلمہ کواپنے رسول کی بدولت اللہ نے ایک چنی ہوئی امت قرار دیا اور اس کی فضیلت قرآن پاک میں بار بار بیان فرمائی۔تم بہترین امت ہو (سورہ آل عمران، آیت 110)۔ اب سب سے پہلی بات جو امت کو سوچنی ہوگی وہ یہ ہے کہ نبی رحمت کی وہ امت جسے اللہ نے منتخب فرمایااور افضلیت عطا کی ،وہ آج مخدوش حالات میں کیوں ہے۔ مندرجہ بالا ذکر کی گئی سورہ آال عمران کی آیت کے شروع میں اللہ تعالیٰ ایک صریح حکم کے طور پر فرماتا ہے اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ اور بعد میں بھائی بھائی بننے کی نعمت کا ذکر فرما کر رب باری تعالیٰ امت مسلمہ کو یہ واضح طور پر آگاہ فرما دیتا ہے کہ اگر امت تفرقے میں پڑ گئی تو اسے آگ کے گڑھے اور قعر مذلت میں گرنے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ چنانچہ ختمی مرتبت محمد مصطفیﷺکے میلاد کا موقع سب سے مناسب ہے کہ ہم اپنی حالت پر غور و فکر کریں اور آگ کے گڑھوں اور ذلت کی گھاٹیوں سے نکلنے کی کوئی صورت بنائیں۔ پوری دنیا میں 12 سے 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت کے طور پر منایا جا تا ہے۔ اس موقع پر ہم پر لازم آتا ہے کہ تفرقے کے تمام نشانات اور علامات مٹانے کا فیصلہ کریں اور اس راہ میں قدم اٹھائیں۔ امت کی مجودہ تنزلی اور بدحالی کی وجہ قرآن پاک میں واضح بتائی گئی ہے: اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی (سورہ انفال آیت 46)۔ اسی طرح سورہ انعام آیت 59 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے بیشک آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا معاملہ یقینا اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔قرآن پاک کی ان آیتوں اور دیگر بہت سی آیات میں قوموں کی ترقی و تنزلی کے لیے اتحاد و اخوت کو نعمت اور کامیابی قرار دیا اور تفرقے و نزاع کو ذلت کے گڑھوں میں گرنے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں اتحاد امت کی فکر ی و عملی بنیادیں بڑی واضح ہیں۔ امت مسلمہ کے عقائد و نظریات قرآن کریم سے اخذ کیے گئے ہیں اور اللہ نے قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں(سورہ الحجر آیت9)۔مسلمانوں کے بنیادی عقائد قرآن سے اخذ کردہ ہیں اور اسی باعث امت مسلمہ کے بنیادی عقائد ایک ہی ہیں۔ خدائے واحد، پیغمبر خاتم، کتاب اللہ، قبلہ نماز و عبادت، عقیدہ روز جزا الغرض تمام بنیادی اصول و عقائد ایک ہی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا ایک مقتدر قومی و آئینی ادارہ ہے۔ اس نے " پاکستان کے دینی مسالک" کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی، جس میں مختلف مسالک کے عقائد انہی کے جید علمائے کرام سے لکھوائے۔ اس کتاب کے مطالعے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ تمام مسالک میں کس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ میلاد نبی کے موقع پر ہفتہ وحدت کا منایا جانا ، مختلف تقاریب اتحاد بین المسلمین کا انعقاد ، جو مذہب دشمن اور ملک دشمن قوتیں فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہیں ان کا فکری، علمی اور عملی تمام پہلوو¿ں سے مقابلہ اور انہیں ناکام بنانا ، دراصل عید میلاد النبی کا اصل ہدف و مقصد ہونا چاہیے۔ دوسرا ہم مسئلہ جو امت مسلمہ کو آج درپیش ہے وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں اور دیگر مظلوم قوموں پر ظلم و ستم ہے۔ مندرجہ بالا ذکر کی گئی آیات قرآنی میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ اگر تفرقے میں پڑو گے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم آگ کے جس گڑھے سے بچے تھے تفرقے کی صورت میں اس میں گرنا تمہارا قدر ہو جائے گا۔ آج فلسطین، شام، عراق و یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ اسی تفرقے کی وجہ سے ہے۔ امت مسلمہ اگر واقعا" ایک ہو جائے تو اسرائیل ایسے چھوٹے سے ملک کے لیے ممکن نہیں کی وہ ظلم کر سکے جو وہ اس وقت بے جھجک کر رہا ہے۔ جہاں اس ظلم کے مرتکب وہ شیطانی قوتیں ہو رہی ہیں جو مسلمانوں اور انسانیت کی دشمن ہیں ، وہاں وہ لوگ بھی ذمہ دار ہیں جو امت مسلمہ میں تفرقے کے بیج بوتے اور اس کی فصل اگاتے ہیں۔ امام علی نہچ البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے علماءسے عہد لے رکھا ہے کہ وہ ظالمون کی شکم پری(اور ظلم) اور مظلوم کی بھوک ( اور اس پر ظلم) کے مقابلے میں خاموش نہ بیٹھیں گے۔ جب تک نبی کی امت اپنے عہد کا پاس نہیں رکھے گی امت پر یہ ستم ، یہ ظلم کبھی ختم نہ ہوگا۔ میلاد النبی خوشیاں منانے اور بانٹنے کا دن بھی ہے ، تجدید عہد کا بھی اور برسر عمل ہونیکا بھی۔