آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
گئے دنوں کی بات ہے کہ ہمارے گھروں میں ریل والے کیمرے ہوا کرتے تھے اور اس میں 36 عدد تصاویر لینے کی گنجائش ہوا کرتی تھی اور کبھی کبھی خوش قسمتی سے ان تصاویر کی تعداد بڑھ کر 38 یا 40بھی ہو جایا کرتی تھی مزے کی بات یہ ہے کہ اسی تعداد میں کسی بھی خاص موقع پر خاندان کے تمام افراد بخیروعافیت اور بخیر وخوبی سماجایا کرتے تھے بعد ازاں کیمرے سے بحفاظت احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ریل کو نکال ڈیویلپنگ اورعرف عام میں دھلوانے کے لئے فوٹو اسٹوڈیو بھجوا دیا جاتا تھا اس عمل کے لئے عموما َپندرہ سے بیس دن کا وقت لیا جاتا تھا اور انتظار کے ان دنوں میں ایک عجیب سامزہ ہوا کرتا تھا ایک " تکلیف دہ مزہ " ۔
ریل میں موجود تصاویر کو پرنٹنگ سے پہلے نیگٹیو کی شکل میں نکالا جاتا تھا ان نیگیٹوز کو بار بار روشنی میں لے جا کر آسمان کی طرف رخ کر کے اپنے تئیں تصاویر کے متعلق اندازے لگانے اور پیشین گوئیاں کرنے کی بھی ایک الگ ہی لذت ہوا کرتی تھی بچپن میں یہ بھی دیکھا کہ تصاویر دھل کر آ بھی جاتی انہیں البم کی زینت بنا دیا جاتا پھر بھی ان کے نیگیٹوزکو سنبھال کر رکھا جاتا تھا تاکہ کبھی تصاویر کے گم ہوجانے یاکسی عزیز کی جانب سے مانگ لئے جانے کے بعد محبت بھری چوری کی صورت میں تصویردوبارہ دھلوائی جا سکے اگر کبھی چوری چھپے ان نیگیٹوز کو روشنی میں لے جا کر بار بار دیکھنے اور دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے تو والدہ کی جانب سے ہوا میں اڑتی ہوئی 180 کی سپیڈ سے آنے والی ایک چپل ہی تصاویر کے آنے تک دل کڑا کر لینے کے لئے کافی ہوتی تھی حیرت یہ کہ موجودہ زمانے کے برعکس بلا کا صبر بھی آ جایا کرتا تھا
وہ سنہرا دور تھا ،تصاویر کی ایک حرمت ہوا کرتی تھی تصویر ایک انتہائی ذاتی شے ہوا کرتی تھی جسے گھر سے باہر کسی کو دکھا دینا مرعوب سمجھا جاتا تھا یہ تصاویر اکثر و بیشتر گھر کے سٹور میںموجود چھ عدد چھوٹے چھوٹے صندوقوں کے نیچے دبی ایک بڑی سی چھ فٹ کی پیٹی جس میں گھر کی تمام قیمتی اشیاءنہایت رازداری کے ساتھ موجود رہتیں وہاں بناءکسی پریشانی کے رکھ دی جاتی تھیں اور جب کبھی سب احباب اکٹھے ہوتے تو کمر توڑ محنت کے بعد ان البمز کو نکالا جاتا تھا جو بہت دل آویز اور قیمتی لمحات ہوا کرتے تھے
وقت گزرتا گیا اور ہم ان قیمتی لمحات اور روایات سے محروم ہوتے گئے ریل والے کیمرے کی جگہ ڈیجیٹل کیمرے نے لے لی مزید ماڈرن ہوئے تو کیمروں کی رسم ہی دم توڑنے لگی اور ہاتھ میں موجود موبائل میں ہی کیمرے کی سہولت میسر آ گئی 36 تصاویر پر پورے خانوادے کی قناعت ایک لطیفے کی سی محسوس ہونے لگے جب ایک سیکنڈ میں پچاس سیلفیز لینے کے بعد بھی ہماری نئی نسل تصویر اچھی نہ آنے کی شکایت کرتے دکھائی دی ۔۔تمام مراحل ہم سے فقط ایک "ٹچ" کی دوری پر طے پانے لگے نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری شخصیات میںصبر و قناعت کی جگہ عدم برداشت، بے صبری اور جلد بازی نے لے لی ایک ایک لمحے کی تصاویر اور ویڈیوز ریکارڈ ہو جاناعام روٹین کا حصہ بن گیا رہی سہی کسر سوشل میڈیا کی تہلکہ خیز آمد نے پوری کر دی ہماری تصاویر اور ویڈیوز باآسانی ریکارڈ تو ہو ہی رہی تھیں سوشل میڈیا کی بدولت اب پوری دنیا کے سامنے بھی آنے لگیں ایک انتہائی ذاتی نوعیت کی چیز کو سوشل میڈیا کی زینت بنا دیا گیا ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی لگن میں ایک عجیب سی دوڑ لگ گئی ہم اپنی مرضی سے اپنے یادگار لمحات سوشل میڈیا پر اپنے پیاروں سے شیئر کرتے رہتے اور جن لمحوں کو ذاتی سمجھتے انہیں اپنی ذات تک ہی محدود رکھتے تو پھر بھی یہ سب کچھ قابل قبول تھا بات یہاں بگڑی جب فقط اپنی ذاتی چیزوں کو مرضی سے شیئر کرنے کی بجائے دوسروں کی ذاتی چیزوں کو ان کی مرضی کے بغیر وائرل کیا جانے لگا ایک طوفان بدتمیزی کا سماں بن گیا کہیں اقتدار کی لالچ ،کہیں کرسی کی ہوس، کہیں سفارشی نظام، کہیں بلیک میلنگ نہ جانے کس کس زمرہ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہم سطح سے ہی بہت نیچے آ گرے کہیں کسی کو کوئی دو ٹکے کا کرتا رہا اور کہیں کوئی خود دو ٹکے کا نہ رہا۔۔ سونے پر سہاگہ ایک نئی ٹیکنالوجی آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) ہماری زندگیوں میں وارد ہوئی بلا شبہ تمام سوشل میڈیا ایپس کا مثبت استعمال ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے اور ان تمام ٹیکنالوجیز کے ذریعے کامیابی و کامرانی کی بہت سی منازل طے کی جا سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس سے فقط منفی رویوں کو فروغ ملا اور اس ٹیکنالوجی کے ذریعے گھناﺅنے فوائد حاصل کئے گئے دھڑ کسی اور کا، سر کسی اور کا، منہ کے بل کوئی جا گرا، عمل کسی اور کا جیسی کئی مثالیں سامنے آنے لگیں زیادہ تفصیلات میں جانے کی ہمارا ضمیر اجازت نہیں دیتا!!!
سوشل میڈیا اخبارات و جرائد ایسے سطح سے گرے ہوئے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جو کہ ایک تکلیف دہ امر ہے ہر وقت دل کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ آج نہ جانے کیا سننے،پڑھنے اور دیکھنے کو ملے جو روح کو مزید چھلنی کر دے راحت اندوری نے شاید ایسے ہی تکلیف دہ حالات کے لئے کہا تھا
ہر اک حرف سے چنگاریاں نکلتی ہیں
کلیجہ چاہیے اخبار دیکھنے کے لئے
اعلٰی اداروں سے وابستہ بظاہر بلند پایہ شخصیات کی ایسی سطح سے گری ہوئی حرکات و سکنات اورقول و فعل میں تضاد پر دل خون کے آنسو روتا ہے ہمارے معاشرے کی بنیاد ایسے توہر گز نہیں رکھی گئی تھی ،ہماری روایات اور اقدار ایسی غلاظت کی روادار تو نہیں تھی، ہمارے آباءنے ہمیں کبھی بھی ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے ایک دوسرے کی تذلیل کرنے اور نیچے دکھانے کی ترغیب تو نہیں دی تھی ابھی بھی وقت ہے خدارا سنبھل جائیں دنیا کے سامنے اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے وطن عزیز کو تماشہ مت بنائیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا کی نظر میں سوالیہ نشان مت بنائیں !
ہمیں پہلے ہی بیش بہاءچیلنجز کا سامنا ہے لیکن ایسے مسائل سے دوچار کر کے مزید قعرمذلت میں مت دھکیلئے نیتوں کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیجئے کسی کے بھی اعمال و کردار کا فیصلہ کرنے والے ہم نہیں اور نہ ہی ہم کسی کو اپنے من پسند خود ساختہ پیمانوں کے مطابق کسی کی عزت و تکریم کا فیصلہ کرنے والے کیونکہ عزت وذلت کا فیصلہ وہی ذات پاک کر سکتی ہے جس کی جانب ہم سب نے جلد یا بدیر لوٹ کر جانا ہے اور بے شک وہ ہمارے نامہ اعمال سے خوب واقف ہے اور اپنے ہر کئے ہوئے عمل کا حساب بھی دینا ہے اور کچھ بعید نہیںکہ وہاں سے پہلے اِس جہان میں بھی حساب دینا پڑ جائے
دئیے سبھی کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں