سیرت طیبہ اور آج کا مسلمان

لقمان شیخ
بارہ ربیع الاول کا دن اس برس بھی بھرپور مذہبی جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے . گھروں اور گلیوں میں چراغاں کیا گیا ہے , محافل میلاد اور میلاد کانفرنسز کا انعقاد کیا گیا لیکن کیا ہم نے اپنی عملی زندگی سیرت نبوی کے مطابق ڈھالنے کی بھی کوئی سعی کی یا نہیں؟ سرکارِ دو جہاں کی سیرتِ طیّبہ اور حیاتِ مقدّسہ کا یہ تاریخی و ابدی اعجاز ہے کہ اپنے اور بیگانے، مسلم اور غیر مسلم سبھی آپ کے ثنا خواں اور آپ کی عظمت و رفعت کے معترف ہیں۔ معروف ہندو شاعر منوہر لال دل کیا خوب کہتے ہیں "کیا دل سے بیاں ہو تِرے اخلاق کی توصیف، عالم ہوا مدّاح ترے لطف و کرم کا"۔ مشہور مغربی مصنف ای ڈرمنگھم سیرتِ طیبہ پر اپنی کتاب Muhammad Life of (P.B.U.H)
 میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتا ہے کہ ”محمدﷺاس اعتبار سے دنیا کے وہ واحد پیغمبر ہیں جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، ان کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں بلکہ ہر ہر گوشہ روشن و منوّر ہے“۔ مہارانی آرٹس کالج میسور (بھارت) کے صدر شعبہ پروفیسر راما کرشنا راﺅ اپنی کتاب ”محمدﷺ، دی پرافٹ آف اسلام“ میں لکھتے ہیں ”محمدﷺ میرے نزدیک ایک عظیم مفکّر ہیں۔ تمام اعلیٰ انسانی سرگرمیوں میں آپ ہیرو کی مانند ہیں“۔ بیسویں صدی کے اوائل 1911ءمیں بیروت کے مسیحی اخبار ”الوطن“ نے دنیا کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا کہ دنیا کا سب سے عظیم انسان کون ہے؟ اس کے جواب میں ایک عیسائی دانشور داور مجاعص نے لکھا ”دنیا کا سب سے عظیم انسان وہ ہے، جس نے دس برس (مدنی زندگی) کے مختصر عرصے میں ایک عظیم مذہب، ایک نئے فلسفے، ایک نئی شریعت اور ایک نئے تمدّن کی بنیاد رکھی، جنگ کا قانون بدل دیا، ایک نئی قوم پیدا کی، ایک نئی طویل العمر سلطنت قائم کی، ان تمام کارناموں کے باوجود یہ عظیم انسان ا?مّی تھا، وہ کون تھا؟ محمد بن عبداللہ قریشی، اسلام کا پیغمبر“۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے اپنے مشہور ہفت روزہ عربی جریدے ”العالم الاسلامی“ 28 ربیع الاول 1421ھ 30 جون 2000ء میں انٹرنیٹ سے متعلق یہ خبر شائع کی کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرنے والی دنیا کی مشہور کمپنی مائیکر و سافٹ نے الفِ ثالث یعنی تیسرے ہزاریے (Millennium) کے موقع پر انٹرنیٹ پر یہ سوال پیش کیا کہ دنیا کی وہ عظیم ترین شخصیت کون ہے، جس نے اپنے فکر و عمل سے انسانی تاریخ اور انسانی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کیے، اور دنیائے انسانیت اس کی فکر و اثر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی؟ کمپنی نے رائے دہی اور شخصیت کے انتخاب کے لیے امیدوار کے طور پر 17 شخصیات کے نام ذکر کیے تھے، جن میں انبیائے کرام میں حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ سیّد المرسلین، خاتم النبیّین حضرت محمدﷺکا نامِ نامی بھی شامل تھا، سوال کے جواب میں رائے دہندگان نے اپنے علم، مطالعے، معلومات، انسانی تاریخ اور انسانی تہذیب و تمدّن کے تجزیے کی روشنی میں اپنی اپنی رائے پیش کی کہ انسانی تاریخ کی وہ عظیم ترین اور بااثر شخصیت جس نے اپنی فکری، عملی اور اخلاقی قوت سے دنیا میں ایک عظیم اور مثالی انقلاب برپا کیا اور انسانی فکر و تاریخ کے دھارے کو موڑ کر سسکتی بلکتی انسانیت کو سعادت و فلاح کی راہ پر گامزن کیا وہ پیغمبر اسلام، سرورِ کائنات، حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ذات بابرکات ہے۔
اس ضمن میں یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ اس وقت انٹرنیٹ پر رائے دہندگان میں غالب اکثریت مغرب کی مسیحی دنیا پر مشتمل تھی۔ سرکارِ دو جہاںکی مدحت و رفعت اور تعریف کا یہ وہ مثالی اور تاریخ ساز پہلو ہے، جس کی روشنی اور اجالا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آپ کے ذکر مبارک سے دنیا روشن اور آپ کے دین اور تعلیمات کے نور سے انسانیت منور ہوتی رہے گی۔ اللہ پاک نے آپ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ آپ تمام بنی نوع انسان کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے اور دنیا سے باطل کو ختم کر دیا۔ آپ نے اپنے اخلاق سے اپنے مخالفین کے دل جیتے اور آپ کی تعلیمات تمام انسانیت کے لئے مشعلِ راہ بنیں۔ اللہ پاک نے آپ کے نام کو قیامت تک اپنے نام کے ساتھ جوڑ دیا اور اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر بھی بلند کیا۔ مولانا سلیمان منصور پوری سیرت پر اپنی کتاب کی جلد 3 میں ”ورفعنا لک ذکرک“ سے متعلق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”بحرالکاہل کے مغربی کنارے سے لے کر دریائے ہوانگ ہو کے مشرقی کنارے تک رہنے والوں میں کون ہے جس نے صبح کے روح افزا جھونکوں میں اذان کی آواز نہ سنی ہو جس میں اعلان ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، یہ اعلان پردہ ہائے گوش کو چیرتا ہوا ہر قعر قلب تک پہنچتا ہے۔ بے شک یہ اعلیٰ خصوصیت آپ کو ہی حاصل ہے اور اس رفعت ذکر کا ذمہ دار خود رب العالمین بنا ہے“۔ 
قارئین کرام! نبی کریمﷺ کی شان بیان کرتے کرتے الفاظ ختم ہوجائیں، آپ کی تعریفیں لکھتے لکھتے قلم ٹوٹ جائیں گے، گو کہ اس پاک ہستی کی ذات کی شان بیان کرنے کے ہم قابل ہی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آج ہم رسول اللہ کی تعلیمات پر کتنا عمل کر رہے ہیں، کتنی زندگی آپ کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر بسر کر رہے ہیں؟ کیا ہم بحیثیتِ مجموعی جھوٹ، چوری ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے مرتکب نہیں ہوتے؟ دوسروں کا حق نہیں مارتے؟ کمزور پر ظلم نہیں کرتے؟ ناجائز طریقے سے مال نہیں بناتے؟ ریاکاری نہیں کرتے؟ فرقہ پرستی نہیں کرتے؟ 
ہم بحیثیت قوم تنزلی کا شکار اسی وجہ سے ہیں کہ ہم نے آپ کی روشن اور منور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا۔ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پر چل کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے.
ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا اور مظلوم کا ساتھ دینے کی تعلیمات کا درس ہمیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی سے ملتا ہے لیکن آج کا مسلمان یہ درس بھول گیا ہے اسی لئے پچاس سے زائد مسلم ممالک فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے مظالم پر چپ سادھ کر بیٹھے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن